آج کے کالمعمر حفیظ

میاں نوازشریف سے وابستہ توقعات

عمر حفیظ

ملک میں عام انتخابات آٹھ فروری کو ہونے جارہے ہیں۔ ایک کے سوا تمام پارٹیاں رابطہ عوام مہم شروع کرچکی ہیں۔ مسلم لیگ نون کے قائد میاں نواز شریف پاکستان واپس آچکے ہیں اور وہ تمام چھوٹی اور علاقائی سیاسی جماعتیں جنہوں نے 2018 میں پی ٹی آئی کی حکومت بنانے میں اُن کا ساتھ دیا تھا اور پھر حکومت گرانے کا سبب بھی بنیں، اب وہ تمام جماعتیں بڑے میاں صاحب کے ہاتھ پر بیعت کررہی ہیں، جس سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ آنے والے انتخابات میں میاں صاحب کا پلڑا بھاری ہوگا اور وہ چوتھی بار وزیراعظم پاکستان بننے کی پوزیشن میں ہوں گے اور ایسا ہوتا نظر بھی آرہا ہے۔
بڑے میاں صاحب نے چار سال جلاوطنی کے کاٹے، تاہم چھوٹے میاں صاحب نے پاکستان میں رہ کر حالات کا سامنا کیا اور باوجود کوششوں کے پارٹی کا شیرازہ بکھرنے نہیں دیا تاہم پی ٹی آئی کی حکومت کو ختم کرنا اور باقی سولہ ماہ کے لئے اقتدار سنبھالنا میں اور میرے جیسے بے شمار لوگوں کے نزدیک قطعی ٹھیک فیصلہ نہیں تھا، پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران کرونا اور عالمی سطح پر مہنگائی نے بڑے بڑے ملکوں کو معاشی لحاظ سے بڑے جھٹکے دیئے، ہم تو معاشی لحاظ سے کسی گنتی میں ہی نہیں ہیں اس لئے ہمیں زیادہ جھٹکے لگے اور وہ لوگ جو پی ٹی آئی کو اقتدار میں لانے کے لئے 2018 کے عام انتخابات میں پولنگ سٹیشنوں تک گئے وہی جھولیاں اٹھاکر اِس کے خاتمے کی دعائیں کرنے لگے کیونکہ ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری نے لوگوں کی چیخیں نکلوادی تھیں، لہٰذا پی ٹی آئی کی حکومت کو گھر بھیجنے کے بعد اگر عام انتخابات کا اعلان کردیا جاتا تو مسلم لیگ نون کو بھاری اکثریت سے کامیاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ شنید ہے کہ بڑے میاں صاحب بھی یہی چاہتے تھے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو گھر بھیجنے کے بعد عوام سے رجوع کیا جائے تاکہ وہ نئی حکومت کا فیصلہ کریں، مگر نجانے کیوں سولہ ماہ کا اقتدار لینے کا مشکل ترین فیصلہ کیاگیا۔ اور جو وزن مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے پی ٹی آئی کے کندھوں پر تھا اُس سے کئی گنا زیادہ وزن اپنے کاندھوں پر ڈال دیا گیا۔
کوئی شک نہیں کہ وزارت اعظمیٰ اور اہم وزارتیں مسلم لیگ نون کے پاس تھیں اور ہومیوپیتھک طرز کی وزارتیں اتحادی جماعتوں نے لے لیں جن کا بظاہر عوام اور مہنگائی سے کوئی دور تک تعلق نہیں تھا، جناب بلاول بھٹو نے بطور وزیرخارجہ دنیا بھر کی سیر بھی کرلی اور خارجہ امور کی تربیت بھی لے لی، مولانا فضل الرحمن صاحب کے صاحبزادے اسعد صاحب نے سڑکوں اور مواصلاحات کی وزارت کا کام بھی سیکھ لیا اور درجن بھر عمرے بھی کرلئے، اسی طرح باقی اتحادیوں نے اِن سولہ مہینوں میں وزارتوںؒ کو خوب انجوائے کیا مگر آئی ایم ایف پروگرام، ڈیفالٹ کے خطرات اور دیگر معاشی مسائل حل کرنے کا بوجھ مسلم لیگ نون کے کندھوں پر آگیا، اسی لئے چھوٹے میاں صاحب بارہا کہتے سنے گئے کہ ہم نے ملک کی خاطر سیاسی قیمت ادا کی ہے۔ بہرکیف اب نگران حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کرارہی ہے، چند روز پہلے ہی وفاقی ادارہ شماریات نے بتاتا کہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح چالیس فیصد سے اوپر چلی گئی ہے، ایک اور خبر نظر سے گزری کہ بلند ترین مہنگائی کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں تیسرے نمبر پر آگیا ہے، گذارش کا مقصد یہ ہے کہ کیا بڑے میاں صاحب اقتدار میں آکر مہنگائی کو بارہ چودہ فیصد کی سطح پر لاسکیں گے، مگر کیسے لائیں گے؟ سمگلروں اور زخیروں اندوزوں بالخصوص ڈالر مافیا پر ہاتھ کیسے ڈالیں گے کیونکہ اسحق ڈار صاحب نے حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد انکشاف کیا تھا کہ انہیں ڈالر کی قیمت کم کرنے سے روک دیاگیا تھا۔ نجانے کیوں دھڑکا سا ہے کہ معاشی حالات جس سطح پر پہنچ چکے ہیں، اب ان کی واپسی ممکن نہیں اور بلاشبہ نہیں ہوگی کیونکہ ہم پٹرول، گندم، دالیں، گیس، اجناس تو دوسرے ملکوں سے درآمد کرتے ہیں یہ تمام چیزیں عالمی مارکیٹ کے نرخوں پر خریدی اور بیچی جاتی ہیں، پھر کیسے معاشی معاملات ٹھیک ہوں گے، مہنگائی کم اور بے روزگاری ختم ہوگی ، ایسے اور بہت سے سوالات ہیں جو تشویش میں تو اضافہ کرتے ہیں مگر اِن کا کہیں سے جواب نہیں ملتا، لیکن ایک چیز تو واضح ہے کہ اب جمہوریت اور ایسی نعروں پر سیاست نہیں ہوگی، اب تو دو وقت کی روٹی کا مسئلہ ہے، جو سیاسی جماعت دے گی وہی عوام میں مقبول ہوگی، وعدہ خلافیوں، ملکی حالات اور پرانے بیانیے اب پیچھے رہ گئے، اب کچھ کردکھانے کا وقت ہے۔ اب بڑی سیاسی جماعتوں کے لئے عملاً کردکھانے کا وقت ہے۔

جواب دیں

Back to top button