چل میلے نوں چلیے

خدیجہ طاہر
زندگی کا خوب صورت میلہ سنگتوں کے دم سے آباد ہوتا ہے ۔من پسند سنگت نہ ہو تو اس میلے میں بھی انسان اکیلا ہے ۔ یہ خوش نصیبوں کا میلہ ہے ۔ خوش نصیب ہے وہ جس کا کوئی منتظر ہے۔ خوش نصیب ہے وہ جو من چاہے ساتھ کی ہم راہی سے لطف اندوز ہو سکے۔ خوش نصیب ہے وہ جو کسی سے روٹھ سکے جس کے ناز برداریاں کرنے والا کوئی ہو۔
تُم سے کوئی رُوٹھا ہے تو پِھر اُس کو مناؤ
ہم سے تو کوئی رُوٹھنے والا بھی نہیں ہے
عدنان اثر
دل میں اگر رفاقت کی چمک نہ ہو ۔ تو یہ میلے اور یہ چراغاں بھی کس کام کے۔کہ شخصیت میں پائیداری اور ٹھہراؤ بھی سنگتوں کے طفیل ہی نصیب ہوتا ہے۔
انسان ایسی مخلوق ہے جو خود تماشا ہے اور خود ہی تماشائی ۔انسان خود میلہ لگاتا ہے اور خود ہی اسے دیکھنے بھی جاتا ہے ۔اپنے علاوہ ہر کسی کو ہجوم کہتا ہے مگر یہ بھول جاتا ہے کہ ہجوم میں رہتے ہوئے تو ہر انسان ہجوم کا حصہ ہے ۔ جب کئی تنہا لوگ اکٹھے ہو جائیں تو میلہ بن جاتا ہے ۔تنہائیاں بانٹ لی جاتی ہیں اور شہنائیاں تقسیم کی جاتی ہیں ۔مختلف جہتوں کے چراغ مل کر چراغاں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یعنی ایک ٹمٹماتی لو سے ایک طاقت ور روشنی کا روپ دھار لیتے ہیں۔ ہر پھیلا ہوا نظارہ سمٹ جاتا ہے مگر روشن انسان اور روشن راہیں اپنے ان مٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔یہ دنیا اپنا رنگ بدلتی رہے گی ۔اس کے رنگ بنتے رہیں گے، رنگ مٹتے رہیں گے ۔رنگ تو بس ایک ہی ہے جسے ہمیشہ دوام ہے جو نہ مٹا ہے نہ کبھی کوئی مٹا سکے گا اور وہ ہے ’’صبغۃ اللہ‘‘ اللہ کا رنگ۔
اللہ کے رنگ میں رنگنے سے مراد یہ بھی ہے کہ بندے کو اس کی صفات میں سے کچھ حصہ مل جائے۔ ادب، نرمی اور احساس جیسے تحفے عطا ہو جائیں۔ یہی حاصل زندگی ہے ورنہ بہ قول شاعر:
ایڑیاں جتنی بھی اس ریگ۔رواں پر مارو
کیا سرابوں کے سوا ہم سفراں ملنا ہے
فیصل عجمی
یہ کوئی بڑی بات یا بڑی تمنا نہیں کہ دشمن مر جائے کیا اس سے قلب مطمئن ہو جائے گا !! نہیں بلکہ دوست بیدار ہو جائے، جذبات زندہ رہ جائیں، یہ اہم ہے۔ ہم حصار وقت سے باہر نکل بھی آئیں تو بھی خواہشات اور آرزوئیں ہمیں مقید رکھتی ہیں۔ یہ بڑی بات ہے، بڑا مقام ہے کہ سجدہ گاہ ہی جلوہ گاہ بن جائے ۔ یہ ایک عالم گیر راز universal secret ہے۔
یہاں ہونا نہ ہونا ہے نہ ہونا عین ہونا ہے
جسے ہونا ہو کچھ خاک در جاناں ہو جائے
بیدم شاہ وارثی
کچھ آوازیں ، کچھ چہرے اور کچھ مہربان رویے سچ میں انسان کا رزق ہوتے ہیں۔ ان کی دوری ہر شئے کی اہمیت بےمعنی کر دیتی ہے۔ لیکن کبھی سکون کے دائرے کو توڑ کر ہجرت کا فیصلہ لازم ہو جاتا ہے۔ جو خیال ہی کبھی روح فرسا ہو اس پر پھٹی نگاہوں سے عمل ہوتا دیکھنا پڑتا ہے لیکن یاد رکھیے!!کہ جب کوئی آپ سے نیکی کرے (بھلے سے آپ اسے دکھاوا ہی سمجھتے ہوں ) تو مر کر بھی اپنے اور احسان گزار کے بیچ ذاتیات اور انانیت کی گنجائش مت آنے دیں ، کیوں کہ اب فقط شکر گزاری بچتی ہے ۔
مگر یاد رہے !! کہ آپ کتنی بھی بلندی کو چھو لیں، آپ کی زندگی آپ کے محسن کی احسان مند رہنی چاہیے۔ یہی اعلیٰ ترین اور انسانی رویوں کی معراج پر مبنی بات ہے۔
بلا شک و شبہ کتابوں کا مطالعہ ایک کمال درجے کی مصروفیت اور بہترین ذریعہ معلومات ہے۔ لیکن کتاب زندگی نہیں ہے زندگی تو وہ ہے جسے ہم گزار رہے ہیں بلکہ جو ہماری آنکھوں کے سامنے گزرتی جارہی ہے ۔زندگی سانس کی ایسی ڈوری ہے جو پل پل کٹتی جارہی ہے۔ علم فقط کتاب کا نام نہیں بلکہ اصل سبق تو زندگی پڑھاتی ہے۔ کتاب کو حقیقت کا عکس کہہ تو سکتے ہیں لیکن حقیقت کے برعکس ہے۔ زندگی کی جن سچائیوں کا ذکر کتاب میں ملتا ہے ان کا حقیقی مشاہدہ کتاب سے باہر کیا جاسکتا ہے۔
انسان کا دماغ حافظے کی سیٹنگ بھی ترجیحی بنیادوں کے مطابق کرتا ہے جو لوگ رابطہ لسٹ میں کہیں پیچھے چلے جائیں ان کو میموری لسٹ سے بھی دور دھکیل دیتا ہے ۔ یوں آہستہ آہستہ ان کے نام اور شکلیں بھی یاد داشت سے محو ہو جاتے ہیں۔ حتی کہ آنکھوں سے گزرے جلوے بھول جاتے ہیں۔ جب انسان موت دیکھے تو زندگی بےمعنی لگنے لگتی ہے اور جب زندگی کی رعنائیوں میں کھو جائے تو موت کو یکسر فراموش کر بیٹھتا ہے۔
دوسروں کی زندگیوں کے فیصلے اور ان کے معاملات کی غیر ضروری پنچائیتیں کرتے کرتے ہماری اپنی رخصت کا فیصلہ سنا دیا جاتا ہے۔ اور یوں سب اکارت حتیٰ کہ سب حاصل بھی لاحاصل کے درجہ میں داخل ہو جاتا ہے۔
وہ خوش بخت لوگ ہیں جنھیں ایک ہی راستے کا مسافر بنایا جاتا ہے انہیں کسی موڑ پر کوئی پریشانی نہیں کہ پہلی ہی بار میں خواری کی زحمت سے بچا لیے جاتے ہیں یہ بھی نوازے ہوئے لوگوں میں سے ہوتے ہیں۔سرِ نیاز کا بےنیاز کے سامنے جھک جانا بھی کمال عبادت بلکہ عطا ہے ۔
دیدار کے قابل تو کہاں میری نظر ہے
یہ تیری عنایت ہے کہ رخ تیرا ادھر ہے
ہم اکثر تب انتہائی غیر مطمئن بن جاتے ہیں بالخصوص جب ہم وصول کرنے والوں میں ہوں۔ پھر ہم فیصلے پر فیصلہ سنانا چاہتے ہیں۔ یعنی وقت عمل آئے تو نئے فیصلے کرنے لگ جاتے ہیں۔ وقت قیام سجدوں میں گر جاتے ہیں۔ جب کوئی حالت بھوک میں آپ تک پہنچایا جائے تو خدائی فوج دار بن کر اسے روٹی کمانے کی تلقین نہ شروع کردیں بلکہ اسے کھانا دیں۔اور اس کے بعد اگر ضروری ہو تو مشوروں سے نوازیں۔ جب کبھی کسی کی مدد طلب نگاہیں آپ کا در کھٹکھٹائیں تو اس کے اعمال ناموں کی کاپیاں کھولنے نہ بیٹھ جائیں کہ یہ ذمہ داری آپ کی نہیں ہے۔ بس آپ اپنی ڈیوٹی نبھائیں اور فیصلوں کا اختیار اس پر چھوڑ دیں جس کو یہ اختیار جچتا ہے ۔ نہ جانے ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہمارے آپ کے سب کے فیصلوں پر ایک اور فیصلہ نافذ ہو جائے گا ۔ اور وہ اٹل ہوگا۔ ہمیں اپنے معاملات خود سے مالک کے حضور پیش کرتے رہنا چاہیے تاکہ بہکنے سے بچا لیے جائیں۔