آج کے کالمغلام مصطفی

سیاست کے بعد کرکٹ کا منظر نامہ بھی تبدیل

غلام مصطفیٰ

(گزشتہ سے پیوستہ)
دوسری طرف یہ بات عجیب سی محسوس ہوتی ہے کہ جب بھی کوئی بڑا ایونٹ قریب آتاہے اس سے پہلے کرکٹ بورڈ میںاکھاڑ پچھاڑ شروع ہوجاتی ہے، کھلاڑیوں سے لیکر چیئرمین تک کسی کو نہیں پتہ ہوتاہے کہ آئندہ ہونے والے ورلڈ کپ میں وہ شامل ہونگے یا نہیں، پاکستانی سیاست کی طرح کرکٹ ٹیم میں بھی مستقل مزاجی کی شدید کمی ہے، حیرت انگیز امر یہ ہے کہ 23-24 کروڑ کے آبادی والے ملک میں 20 پروفیشنل کرکٹر نہیں ملتے جس سے ثابت ہوتاہے کہ ہماری قومی کرکٹ میں سیاسی مداخلت ہوتی ہے، یہاں میرٹ کے بجائے سفارشی سسٹم موجود ہے، جس کی وجہ سے 20اچھے کرکٹر ہم سامنے نہیں لاپاتے۔ دوسری حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پوری دنیا کی کرکٹ ٹیموں میں وکٹ کیپر بیٹسمین شامل کئے جاتے ہیں جبکہ پاکستان میں بیٹسمین وکٹ کیپر شامل کیاجاتاہے جس کے باعث وہ وکٹ کیپرنگ میں اچھی کارکردگی نہیں دکھاپاتا۔پاکستان کرکٹ میں ایک منجھے ہوئے وکٹ کیپر بیٹسمین کی بھی ضرورت ہے،جو کیچز اور اسٹمپس ضائع نہ کرے اور ٹیم کے لئے اچھی بیٹنگ کرتے ہوئے سکور بھی کرے ۔کیونکہ وکٹ کیپرنگ کرکٹ میں سب سے مشکل جاب ہوتی ہے اس لئے اس جاب کے لئے فٹ فاٹ نوجوان کی کھلاڑی کو شامل کیاجاناچاہیے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کا قیام ویسے تو پاکستان بننے کے بعد عمل میں آیا تھا لیکن کرکٹ کی تاریخ کے مطابق 22 نومبر 1935 میں کراچی میں سندھ اور آسٹریلیا کے ٹیموں کے درمیان میچ کھیلا گیاتھا۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم جسے اکثر شاہین کے نام سے پکاراجاتاہے۔گرین شرٹس نے ٹیسٹ، ایک روزہ بین الاقوامی اور ٹوینٹی20 بین الاقوامی کرکٹ میچوں میں شرکت کی ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ مقامی بین اور الاقوامی کرکٹ مقابلوں کی نمائندگی کرچکاہے۔ پاکستان انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) اور ایشین کرکٹ کونسل (اے سی سی) کا رکن ملک ہے۔پاکستان کے قریباً تمام شہروں اور علاقوں کی اپنی کرکٹ ٹیمیں ہوتی ہیں جو مقامی سطح پر ہونے والے کرکٹ مقابلوں میں حصہ لیتی ہیں، کیونکہ کرکٹ کا کھیل پاکستان میں سب سے زیادہ مشہور اور مقبول ہے، اس لئے پاکستانی بچے بہت چھوٹی عمر میں ہی کرکٹ کھیلنا شروع کر دیتے ہیں اور آپ پاکستان کے کسی بھی علاقے، گلی، محلے، سڑک یا پھر میدان میں چلیں جائیں آپ کو بچے، نوجوان لڑکے اور بڑی عمر کے افراد کرکٹ کھیلتے اور دیکھتے نظر آئیں گے۔پاکستان کے مشہور مقامی مقابلوں میں قائد اعظم ٹرافی،پیٹرنز ٹرافی،پنٹینگولر ٹرافی،قومی ایک روزہ چیمپئن شپ،پاکستان سپر لیگ،پاکستان جونیئرلیگ،عالمی کرکٹ اور اس کے علاوہ بھی کرکٹ کے بہت سے ایونٹس ہوتے رہتے ہیں۔
پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کے پہلے کپتان عبدالحفیظ کاردار تھے۔پاکستان کا پہلا ٹیسٹ میچ اکتوبر 1952ء میں دہلی میں پانچ ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے حصے کے طور پر کھیلا گیا تھا جسے بھارت نے 2-1 سے جیتا ۔ پاکستان نے اپنا پہلا دورہ انگلینڈ 1954ء میں کیا اور اوول میں فتح کے بعد سیریز 1-1 سے برابر کر دی جس میں فاسٹ باؤلر فضل محمود نے 12 وکٹیں حاصل کیں۔ پاکستان کا پہلا ہوم ٹیسٹ میچ جنوری 1955ء میں بھارت کے خلاف بنگلہ بندھو نیشنل سٹیڈیم ، ڈھاکہ ، مشرقی پاکستان ( جواب بنگلہ دیش بن چکا ) میں کھیلا گیا تھا، جس کے بعد بہاولپور، لاہور، پشاور اور کراچی میں مزید چار ٹیسٹ میچز کھیلے گئے (سیریز کے پانچوں میچز ڈرا ہو گئے۔ ٹیسٹ کی تاریخ میں اس طرح کا یہ پہلا واقعہ تھا) پاکستانی کرکٹ ٹیم کو ایک مضبوط لیکن غیر متوقع ٹیم سمجھا جاتا ہے۔
اس وقت دنیا میں مختلف فارمیٹ کی کرکٹ کھیلی جارہی ہے، آج کی کرکٹ اور 50سال پہلے کی کرکٹ میں بہت فرق آچکاہے، پاکستان کرکٹ ٹیم مختلف فارمیٹ کے لئے ہونی چاہیے لیکن افسوس کہ ہم نے صرف 20-20 کرکٹ کو فوکس کیا ہوا ہے اور T20 کرکٹ فارمیٹ کو فالو کررہے ہیں جس کی وجہ سے ہماری کرکٹ ٹیم 50 اوورز یعنی ون ڈے میچز میں پورے اوور نہیں کھیل پاتی یا پھر پورے اوور کرانے میں مشکلات پیش آتی ہیں، فاسٹ بائولنگ کا شعبہ جو پاکستان کرکٹ ٹیم میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتاہے ،اسے کمزور کردیا گیاہے، بیٹنگ میں اگرچہ کچھ بہتری آئے گی کیونکہ پہلے پاکستان سیکنڈ بیٹنگ میں ٹارگٹ حاصل نہیں کرپاتاتھا اور اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاتھا لیکن اب پاکستان کی بیٹنگ میں کچھ بہتری آئے ہے لیکن بدقسمتی سے آج بھی مستقل مزاجی کی کمی ہے۔
(جاری ہے۔۔۔۔۔)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button