لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔۔۔!
آصف رفیق
ملک کی موجودہ صورت حال میں سیاسی جماعتوں کے درمیان ہم آہنگی بہت ضروری ہے، انتخابات کے نتیجے میں نئی قائم ہونے والی حکومت کو ملک میں مثبت تبدیلی لانا ہوگی، پاکستان کی ترقی کے لئے کئے جانیوالے تمام اقدامات قابل قبول ہونے چاہئیں۔ دوسری جانب یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ افواج پاکستان اور اس کی قیادت ہر قسم کی سازشوں کو سمجھتی ہے اور اس سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت بھی رکھتی ہے اور اس کا اظہار بھی کررہی ہے۔ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو انتخابی مہم کے دوران یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا تاکہ شر پسند عناصر ناکام ہوسکیں، اختلافات کی سیاست سے ملک دشمن عناصر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ لہٰذا باہمی اختلافات کو ملک کی ترقی کی راہ میں حائل نہیں کرناچاہیے۔
سیاسی جماعتوں کی قیادت کو الیکشن کمیشن کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہیے، انتخابات کے متعلق بے یقینی کی کیفیت کو ختم کرتے ہوئے انتخابات کی تیاری شروع کرتے ہوئے انتخابی مہم کا آغاز کردینا چاہیے تاکہ ملک میں سیاسی سرگرمیاں شروع ہوسکیں اور ملک آگے بڑھ سکے۔ جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا ہم معاشی بحران سے نہیں نکل سکتے۔ سیاسی جماعتوں کو اس حوالے سے مثبت کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔اگر وہ چاہتی ہیں کہ ملک میں جمہوریت کاتسلسل چلتارہے تو انہیں اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرناہوگا اور عدم برداشت کی پالیسی ترک کرناہوگی۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات کی تاریخ اعلان کردیا گیا اور اب آئندہ عام انتخابات8 فروری 2024ء بروز جمعرات کو ہوں گے۔ انتخابات کا مقررہ تاریخ پرانعقاد ہی ایک ایسا واحد راستہ ہے جو ملک کو سیاسی و معاشی اور سماجی عدم استحکام سے باہر نکالنے کا سبب بنے گا۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ فی الحال نظرنہیں آرہا۔
’’ہم دیکھیں گے‘‘یہ فیض احمد فیض صاحب کی ایک مقبول نظم ہے، اس نظم میں فیض صاحب نے یوم حساب کی بہترین منظر کشی کرتے ہوئے وقت کے حکمرانوں کو للکارا ہے۔ فیض صاحب نے یہ نظم سابق جنرل ضیا الحق کی حکومت کے خلاف بطور احتجاج کہی تھی، اس نظم میںفیض صاحب نے کیا خواب منظر کشی کی ہے۔(1985 میں جنرل ضیا الحق کے فرمان کے تحت عورتوں کے ساڑھی پہننے پر پابندی لگا دی گئی تھی تو پاکستان کی مشہور گلوکارہ اقبال بانو نے احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے لاہور کے ایک سٹیڈیم میں کالے رنگ کی ساڑھی پہن کر 50 ہزار سامعین کے سامنے فیض احمد فیض کی یہ نظم گائی۔نظم گانے کے دوران سامعین کی طرف سے انقلاب زندہ باد کے نعرے بھی گونجتے رہے۔یہ نظم آج بھی بہت مقبول عام ہے۔ فیض صاحب ایک انقلابی شاعر تھے۔ویسے بھی شاعروں کی زندگی عام لوگوں کی زندگی سے ذرا مختلف ہوتی ہے، ان کا سوچنے کاانداز مختلف ہوتاہے، وہ بہت آگے کی سوچتے ہیں، آج وطن عزیز کے حالات دیکھتے ہوئے ہمارا دل جلتاہے، اداسی سی چھاجاتی ہے اور سوچتے ہیں کہ اب اس وطن کو کس طرح ٹھیک کیاجائے گا۔
یہاں سب دعوے تو کرتے ہیں لیکن کرتے کچھ نہیں، اور اگر کوئی کرناچاہے تو اسے کرنے بھی نہیں دیتے، عجیب لوگ ہیںملک میں جس طرح آئین کی تشریح کی جاتی رہی ہے، اور کی جارہی ہے اس سے ظاہر ہوتاہے کہ ہرطاقتور شخص اپنی مرضی کا آئین و قانون نافذ کرناچاہتاہے۔آئینی ذمے داریاں پوری کرنا حکومت اور الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے، الیکشن کو صاف وشفاف اور سب کے لئے قابل قبول بنانا الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے، اگراس مرتبہ الیکشن میں دھاندلی کی گئی تو عوام کاسخت ردعمل سامنے آسکتاہے، الیکشن سے پہلے سلیکشن کا طریقہ کار ختم ہوناچاہیے، عوام کی رائے کا احترام ضروری ہے۔
گزشتہ ڈیڑھ سال سے ملک میں آئین و قانون اپنی روح کے مطابق نافذ ہوتا نظرنہیں آرہا، جس کی مرضی ہے جو چاہے کرتاپھرے، عوام اس مرتبہ بھی یہی سوچ رہے ہیں کہ آئندہ الیکشن سلیکشن سے پاک ہوپائے گا؟ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر حالات خراب ہوسکتے ہیں۔عوام سے ہی ملک بنتے ہیں اور قائم رہتے ہیں۔آخر اس ملک میں عوام کی رائے کا احترام کیوں نہیں کیاجاتا؟ کیوں ہر الیکشن کو متنازعہ بنادیاجاتاہے اور الیکشن کے بعد سیاسی جماعتیں دھاندلی کے الزامات عائد کرتی ہیں اور الیکشن کمیشن پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں، جس کے باعث عوام اس نظام سے بیزار ہوچکے ہیں۔ہم الیکشن سے پہلے ایسا میکنزم کیوں نہیں بنالیتے جس پر سب کا اتفاق ہو، انتخابات میں حصہ لینا تمام سیاسی جماعتوں کا آئینی اور جمہوری حق ہے۔ انتخابات سے روکنا آئین وقانون کی خلاف ورزی ہے۔ ملک میں آئین و قانون کی بالادستی قائم کئے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں، پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی موجودہ قیادت کو بالغ نظری کامظاہرہ کرناہوگا، افراتفری کی سیاست ختم کرناہوگی۔ ملک کو آگے بڑھانے اور ترقی دینے کے لئے انصاف کے تقاضے پور ے کرنا ہوں گے اور میرٹ کو بنیاد بناناہوگا، تعلیم کو فری اور معیاری بناناہوگا، صحت کے حوالے سے پاکستان باقی دنیا سے بہت پیچھے ہے، صحت کی سہولیات عوام تک پہنچانا ہوں گی، الغرض ہر شعبے میں اصلاحات کی ضرورت ہے اور اصلاحات صرف اور دیانتدار اور مخلص قیادت لاسکتی ہے۔ خود غرض اور لالچی قیادت نے نہ پہلے ملک کوترقی دی تھی اور آئندہ دے پائے گی۔