مسیحا۔۔۔! ؟

محمد عثمان کھوکھر
فلسطین پر ظلم و تشدد ہو یا کرکٹ کی ٹیم کھیل رہی ہو ہم دیکھنے کے ساتھ دعائیں کرتے ہیں اور تو اور حقیقت ہمارے سامنے ہوتی ہے ہمارے علم میں ہوتا ہے ایسا ممکن نہیں لیکن ہمارا حال بالی ووڈ کی فلمیں دیکھنے والے اس شخص جیسا ہوتا ہے جسے یقین ہوتا ہے کہ ابھی اِدھر سے ہیرو آئے گا اور وہ مسیحا سب کچھ ٹھیک کر دے گا ۔بنیادی طور پر میں معاشرتی اقدار تہذیب و تمدن ثقافت روایات،رویوں اور منظروں کا ناظر ہوں۔میرے خیال سے پسماندہ معاشرے اور تہذیبیں اکثر کسی مسیحا کی تلاش میں رہتی ہیں کہ وہ آکر سب ٹھیک کر دے گا،منتظر زہنوں کی تمثیلات بھی ایسی ہیں بندہ ان کے حصار اور نشے سے چاہ کر بھی نکل نہیں سکتا۔جیسے انصاف و عدل کا معیار ایسا ہوگا کہ شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پئیں گے اور طبقاتی کشمکش کی تو کہئے مت بس! سب ایک ہوں گے اور مزدور، ہاری، کسان یہ تاجر سیاستدان سب برابر ہوں گے اور سچ پوچھیں تو واعظ کی ان تمثیلات پر اکثر ہمیں حضرت غالب یاد آ جاتے ہیں کہ بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی صورت حال ایسی ہی ہے واعظ محترم عالم جنوں کی آخری تصوراتی پہاڑی پر چڑھے بس (بِکنا پارلیمانی الفاظ نہیں ہے اور وہ بھی واعظین کے لئے سو ڈیش ڈیش )رہے ہیں اور سننے والے بھی عقیدتوں میں گم جوش مارے بس خواب خواب خمار خمار بقول حفیظ جالندھری
اس حالت میں ہوتے ہیں کہ امید اور یاس گم حواس گم قیاس گم نظر سے آس پاس گم ہمہ بجز گلاس گم معاملہ یہی تک نہیں بلکہ سامعین کی فرمائش جاری رہتی ھے یہ خیالی تصوراتی سہانا خواب جاری رہے ایسا ممکن نہ ہو تو حقیقت کم از کم ایسی ہونی چاہیے کہنہ مے میں کچھ کمی رہے قدح سے ہمدمی رہےنشست یہ جمی رہے یہی ہما ہمی رہے بس یہی سارا منظر ہے اور قوم ساری اس مسیحا کی منتظر اور جناب واعظ صاحب کے لفظ لفظ خمار میں تباہی و بربادی کی دلدل میں دھنستی جارہی ہے۔اخلاقی معاشرتی اور سماجی روایات و اقدار دم توڑ چکی ہیں مگر سب کسی آنے والے مسیحا کے منتظرہیں۔اللہ جانے وہ کب آئے اور اگر آئے بھی تو اس مست ماری طوطا فال قسمت پر یقین رکھنے والی قوم کو مضمون آگہی کیسے پڑھائے گا؟
دراصل کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا،جب تک وہ اپنے طے شدہ متعین اصول و قانون کی پاسداری ہر صورت ممکن نہیں بنا لیتالیکن ہم انفرادی و اجتماعی طور پر اس شے سے عاری ہی نہیں بلکہ اسی کے باغی ہیں۔انفرادی اور اجتماعی طور پر ہم،نظریہ اصول اور قانون شکن ہیں۔حقیقت تو ایسی تلخ ہے کہ ہم،نفسیاتی طور پر قانون شکنی کر کے سکون اور لذت حاصل کرتے ہیں،اور دوسری اہم وجہ مست ماحول اپنی دھن میں مگن خاموش اپنے مفادات کے لئے اکثر بیشتر آنکھیں کھولتے ہیں مگر وہ بھی غلط موقعے پر غلط راہ کا انتخاب کرتے ہیں جو اکثر نہیں بیشتر معاشرے کے امن کو تباہ کر دیتا ہے۔ جہاں دیکھو سنو چائے کے پھٹے سے لیکر پنج تارا ہوٹل کی لیدر پوشش کرسیوں پر بس حکومت اور سیاستدانوں کا ہی رونا رویا جا رہاہے۔ کوئی بندہ بھی اس بگڑتے حالات اور متنزل معاشرے کے اسباب و محرکات پر سوچتا ہی نہیں کہ،اصل سبب کیا ہے ؟کچھ اور نہیں سب سے اہم اور بنیادی وجہ خاموشی ہے مسلسل خاموشی۔آپ کہیں گے خاموش کب ہیں عجیب بندہ ہے اپنے ہی تمہیدی الفاظ کی اب نفی کر رہا ہے تو جناب والا گذارش ہے کہ ،شور اور بول میں بڑا فرق ہوتا ہے ۔ہم سب بس شور ہی شور میں مبتلا ہیں جبکہ بول کا بیج آگہی کی سرزمین سے پھوٹتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے تناور شجر سایہ دار بن جاتا ہے، جس کا سایہ اپنے آنگن سے پڑوس کے صحن تک پہنچ جاتا ہے۔ وہی معاشرہ جو پستی اور تنزلی کی گہرائیوں میں گرا تھا پھر وہی فرسودہ رسم و روایات کو توڑتے ہوئے جہالت کی تہذیب و تمدن کو مغلوب کرتا ہوا عالم دہر میں اسلامی فلاحی معاشرتی ریاست کے نام پر پہچانا گیا۔ نظریہ بھی صحیح تھا اس کے بول بولنے والے بھی صادق تھے۔ہمارے پاس نظریہ تو وہی لا الا اللہ والا مگر ملاوٹ شدہ اور تملکو عرب والعجم والا بول بولنے والے اکثریت میں جھوٹے اور مکار ہیں، ایمان داری سے کہئے لاالاااللہ کے اقرار کے بعد پھر کسی مغربی مشرقی آقا کی گنجائش رہتی ہے،یا کسی اور نظام کی وقعت رہتی ہے۔یہ دربار و مزارات پہ عقیدتوں کی آڑ میں،شرک و بدعت کی جنس رہتی ہے.ایاک نعبد و ایاک نستعین کے طلبگاروں کو کیا اسلامی قانون اور اسلامی سزائیں بوجھ لگتی ہیں ؟اخوت محبت کے پیروکاراور پرچار کرنے والوں اور قانون اخوت کہ مسلمان ، مسلمان کابھائی ہے۔نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اس کو ظلم میں سونپتا ہے ،نہ اس کو رسوا کرتا ہے ،نہ اس کوحقیر جانتا ہے ۔کسی شخص کے بدبخت ہونے کے لئے اتنا ہے کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھےکشمیر و فلسطین کو چھوڑئیے ہمارے اپنے ملک معاشرے میں انساں زادے انسانیت کو ترس رہے ہیں۔ظلم دہشت اور درندگی ہی درندگی ہے جس کا سربازار کاروبار کیاجاتا ہے اور ہم سب خریدار ہیں حالات واقعات مناسبت اور مفادات کے لحاظ سے ننھی کلیاں ہوس مارے انسان نما جانوروں کے ہاتھوں آئے روز بے موت مر رہی ہیں مگر سب چپ ہیں۔ بیچ چوراہے لوفر لفنگا کسی بھی شہری کی عزت سے کھیلتا ہے اور سب تماشائی بنے اس مظلوم کی بےبسی پر ہنس رہے ہوتے ہیں۔علاقے محلے پنڈ شہر میں ایک غنڈہ بدمعاش پورے کے پورے معاشرتی سماجی نظام کے امن کو تباہ کر رہا ہوتا ہے اور سب دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ کوئی تو مسیحا آئے گا۔ وہی کونسلر کا الیکشن لڑنے والا جس کے پاس بلدیاتی الیکشن کی فیس تک نہیں ہوتی وہ عمل جمہوریت سے یوں فیض یاب ہوتا ہے کہ اگلی دفعہ وہ ایم این اے سلیکٹ ہوکر آئین پاکستان میں شامل کرپشن نہ کرنے کا حلف دے رہا ہوتا ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دبئی میں اس کے پلازے بن جاتے ہیں وہ عوامی خدمتگار ہوتے ہوئے بزنس آئیکون بن جاتا ہے۔طے شدہ تنخواہ والا سرکاری ملازم روز بروز یوں ترقی میں ہوتا ہے کہ اس کے بچے ایچی سن اور بیوی سوک ہنڈا میں بیٹھی نرگس کے بیوٹی پالر میں نظر آتی ہے۔ غرض ہر شعبہ حیات اوپر سے نیچے ناانصافی اور قانون شکنی میں اپنی مثال آپ ہے۔کہتے جائیے اور لکھتے جائیے یہ روداد ختم ہونے کو نہیںمگر اس ظلم اور ناانصافی کو روکنے کا واحد حل ان کے خلاف آواز اٹھانا اور اپنا مسیحا آپ بننا ہے۔ قانون و آئین کے تابع رہتے ہوئے آواز اٹھائیں ۔ترجمہ:بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا،جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل ڈالے اور
جب اللہ کسی قوم کو برے دن دکھانے کا ارادہ فرماتا ہے تو پھر اُسے کوئی ٹال نہیں سکتا اور اللہ کے سوا ایسوں کا کوئی بھی مددگار نہیں ہوسکتا۔قصہ پھر وہی ہے باتوں اور خالی کھوکھلے نعروں سے تبدیلی نہیں آنے کی حقیقی اور دیر پا تبدیلی کے لئے ہمیں آگہی و شعور کے چراغ جلانے ہوں گے ہمیں لاالااللہ کے نظریہ کوخالصتاً تملکو عرب و العجم والا بول و عمل دینا ہوگاجس کی بنیاد اخوت و محبت پر مبنی ہے۔آگہی کچھ اور نہیں بس تسلیم کر لینے کا نام ہے۔ جسے دین اسلام کہتے ہیں اور اس کا پہلا تقاضہ یہی ہے کہ،قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دےدہر میں اسم محمدّ سے اُجالا کر دے۔قوت عشق وہی آگہی وہی بول عمل اور درحقیقت وہی مسیحا ہے جس کے ہم سب منتظر ہیں۔دعا ہے کہ وہ خالق کائنات ہمیں ہمارے مسیحا سے ملا دے۔آمین