شیر اور گدھا

جنگل میں شیروں نے گدھے کا بچہ شکار کر لیا۔گدھے کا بچہ کافی حد تک زخمی تھا تو ایک بزرگ شیر نے کہاکہ اسے مزید مارنے یا کھانے کے بجائے اسے اپنے پاس رکھ کر پال پوس کر بڑا کرنا زیادہ فائدہ مند ہے۔ بوڑھے شیر کی بات مان کر شیروں نے اس گدھے کو گود لے لیا اور اس کا اچھے سے خیال رکھا حَتّیٰ کہ وہ شیروں کا وفادار گدھا بن گیا۔ایک دن اسی بزرگ شیر نے کہا، اب وقت آگیا ہے کہ اس گدھے کو واپس اس کی برادری میں چھوڑ دیا جائے۔ شیروں نے ایسا ہی کیا اور اس گدھے کو اپنی ہمراہی میں لے جا کر گدھا برادری کے سپرد کردیا اور کہا کہ یہ گدھا تم باقی گدھوں سے ممتاز ہےکیونکہ یہ ہمارا حمایت یافتہ گدھا ہے۔ گدھوں نے فورًا اس گدھے کو اپنا سردار مان لیا اور شیروں کی حمایت حاصل ہونے کی وجہ سے اس کے ہر حکم کی تعمیل کرتے اور نافرمانی سے ڈرتے رہتےکیونکہ جو بھی گدھا اس سردار گدھے کی حکم عدولی کرتا تو سردار گدھا اس نافرمان گدھے کو گرفتار کرکےشیروں کے حوالے کر دیتا اور وہ اس نافرمان کو چیر پھاڑ کر کھا جاتے تھے۔ اس طرح گدھوں کو سردار مل گیا اور شیروں کو شکار کی پریشانی سے نجات مل گئی۔جہاں تک بات ہے اس سردار گدھے کی تو وہ گدھوں کے نزدیک شیر تھا اور شیروں کے درمیان گدھا تھا۔
پاکستان میں بھکاریوں سے متعلق حیران کن حقائق کچھ اسی طرح سے ہیں۔ہمارا تعلق خالص اسلامی ممالک سے ہے۔ایک ایسے ملک سے جو خالص اسلامی اور نظریاتی بنیادوں پر قائم ہوا۔جو اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے بنایا گیا۔24 کروڑ سے زائد آبادی والے ملک میں 3 کروڑ 80 لاکھ بھکاری ہیں جس میں 12 فیصد مرد، 55 فیصد خواتین، 27 فیصد بچے اور بقایا 6 فیصد سفید پوش مجبور افراد شامل ہیں۔ان بھکاریوں کا 50 فیصد کراچی، 16 فیصد لاہور، 7 فیصد اسلام آباد اور بقایا دیگر شہروں میں پھیلا ہوا ہے۔کراچی میں روزانہ اوسط بھیک 2ہزار روپے، لاہور میں 1400 اور اسلام آباد میں 950 روپے ہے۔پورے ملک میں فی بھکاری اوسط 850 روپے ہے۔روزانہ بھیک کی مد میں یہ بھکاری 32 ارب روپے لوگوں کی جیبوں سے نکال لیتے ہیں۔سالانہ یہ رقم117 کھرب روپے بنتی ہےڈالر کی اوسط میں یہ رقم 42 ارب ڈالر بنتی ہے۔بغیر کسی منافع بخش کام کے بھکاریوں پر ترس کھا کر ان کی مدد کرنے سے ہماری جیب سے سالانہ 42 ارب ڈالر نکل جاتے ہیں۔اس خیرات کا نتیجہ ہمیں سالانہ 21 فیصد مہنگائی کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے اور ملکی ترقی کے لئے 3 کروڑ 80 لاکھ افراد کی عظیم الشان افرادی قوت کسی کام نہیں آتی جبکہ ان سے کام لینے اور معمولی کام ہی لینے کی صورت میں آمدنی 38 ارب ڈالر متوقع ہے جو چند برسوں میں ہی ہمارے ملک کو مکمل اپنے پاؤں پر نہ صرف کھڑا کرسکتی ہے بلکہ موجودہ بھکاریوں کے لئے باعزت روزگار بھی مہیا کرسکتی ہے۔اب اگر عوام اسی مہنگائی میں جینا چاہتے ہیں اور اپنے بچوں کی روٹی ان بھکاریوں کو دیکر مطمئن ہیں تو بیشک اگلے سو سال اور ذلت میں گزارئیےلیکن اگر آپ چند سالوں میں ہی مضبوط معاشی استحکام اور اپنے بچوں کے لئے پرسکون زندگی دینا چاہتے ہیں تو آج ہی سے تمام بھکاریوں کو خداحافظ کہہ دیجیے۔ پانچ سال کے بعد آپ اپنے فیصلے پر ان شاللہ نادم نہیں ہوںگے اور اپنے بچوں کو پھلتا پھولتا دیکھ کر خوشی محسوس کریں گے بنگلہ دیش نے جس دن بھکاری سسٹم کو خدا حافظ کہا تھا، اس کے صرف چار سال بعد اس کے پاس 52 ارب ڈالر کے ذخائر تھے۔کیا ہم اچھی بات اور مستند کام کی تقلید نہیں کرسکتے؟اب اپنے بچوں کے لئے فیصلہ آپکے ہاتھ میں ہے ۔۔!!اگر ایسا نہ ہو سکا تو جو حال گدھے کے سردار نے کیا تھا وہی حال مکمل طور پر ہمارا ہو گا کیونکہ ہمارے سرداروں نے کچھ تو پہلے ہی امریکہ کے حوالے کیا ہے اور کچھ ہم نسل کو حقیقی بھکاری بناکر ملک و قوم کا بیڑا غرق کر دیں گے۔