ایڈیٹوریل

افغان سرزمین کا پاکستان کیخلاف دہشت گردی کیلئے استعمال

تحریک طالبان پاکستان کی ریاست کے خلاف سرگرمیوں پر ایک بار پھر نگران وزیر انوار الحق کاکڑ نے افغان طالبان کو دو میں سے ایک راستہ منتخب کرنے کی پیشکش کی ہے۔ افغان طالبان کوایک راستہ یہ دیاگیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے لوگوں کو پاکستان کے حوالے کیا جائے جبکہ دوسرا راستہ اِن کے خلاف طالبان حکومت خود کارروائی کرے۔ بلاشبہ اِس کے علاوہ ایک تیسرا راستہ بھی ہے جو اِس وقت افغان حکومت نے اپنایا ہوا، وہ نہ تو ازخود ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرتے ہیں اور نہ ہی اِن کو پاکستان کے حوالے کرتے ہیں مگر اِس سیدھے اور دوٹوک معاملے کو الجھانے کے لئے ہمہ وقت جواز بھی گھڑتے ہیں اور آخر میں بے بنیاد الزام تراشی بھی کرتے ہیں۔ نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے ٹی ٹی پی کے معاملے پر افغان طالبان سے دو سال پہلے ہونے والے مذاکرات کو بھی ڈھونگ قرار دیتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے لوگ کابل میں عملی طور پر ان مذاکرات میں شریک تھے، جو انہی سے متعلق پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان ہورہے تھے بہرکیف طالبان اچھی طرح جانتے ہیں کہ ٹی ٹی پی والے کہاں سے حملے کر رہے ہیں اور اِن حملوں کے پیچھے اُن کے کیا مقاصد ہیں اور کون کون سی طاقتیں اِن مقاصد سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں۔ عجیب جواز ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے لوگ افغانستان سے حملہ آور نہیں ہوتے لہٰذا پوچھا جانا چاہیے کہ وہ دہشت گرد روس کے ساتھ جڑی ریاستوں سے حملہ آور ہورہے ہیں حالانکہ حملے بھی افغانستان سے ہورہے ہیں، کرنے والے بھی تحریک طالبان پاکستان کے لوگ ہیں مگر افغان حکومت تردید کرتی ہے، مگر سرحد پار سے حملے کوئی ایسی نظر نہ آنے والی شے نہیں ہیں بلکہ چند ماہ قبل ہی ٹی ٹی پی نے افغان سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے کوئٹہ کے شہری آبادی والے علاقوں پر بھاری گولہ باری کی اور کئی روز تک پاک افغان سرحد پر حالات کشیدہ رہے، لہٰذا کوئی منطق یا کوئی جواز دراصل دو ہمسایہ ملکوں کے تعلقات کو خراب کرنے کے سوا ، کچھ بھی نہیں ۔ تحریک طالبان پاکستان کے لوگ افغان سرزمین پر موجود ہیں اور وہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتے ہیں، سرحد پار سے گولہ باری ہو یا پھر ملک کے اندر دہشت گردی کی لرزہ خیز وارداتیں ان تمام کارروائیوں کے تانے بانے افغان سرزمین سے ہی ملتے ہیں۔ بلکہ نیٹو فورسز کی افغانستان میں موجودگی کے دوران بھی ٹی ٹی پی کو پاک سرزمین پر مسلح کارروائیاں کرنے کی مکمل اجازت تھی اسی لئے سانحہ آرمی پبلک سکول سمیت درجنوں دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے، سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ ہوا، اسی ہزار کے لگ بھگ سکیورٹی فورسز اور عام شہری شہید ہوئے۔ البتہ ایک غلط فہمی ہمیشہ سے موجود رہی کہ پاکستان کے خلاف دہشت گردوں کو افغان کٹھ پتلی صدر اشرف غنی سپورٹ کررہے ہیں اِن کے اقتدار کے خاتمے کے بعد پاک افغان سرحد بھی محفوظ ہوجائے گی اور افغان عبوری حکومت دہشت گردوں کے لئے افغان سرزمین کا استعمال مکمل طور پر روک دے گی مگر افسوس کہ پاکستان کے اعتبار اور مثبت سوچ کو شدید ٹھیس پہنچائی گئی اسی لئے افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا اور اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے کے باوجود تاحال افغان سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی کے لئے نہ صرف استعمال کیا جارہا ہے بلکہ بے بنیاد اور بلاجواز تاویلیں بھی گھڑی جارہی ہیں کہ دہشت گرد افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کررہے۔ بہرکیف ہم سمجھتے ہیں کہ افغان عبوری حکومت نے پاکستان کے احسانات کا بدلہ اِسی طرح چکانے کا فیصلہ کیا ہے تو پاکستان بھی آئندہ افغانستان کے معاملے پر اپنا پیٹ کاٹ کر، افغانوں کے لئے ہمدرد بنتے وقت کئی بار سوچے۔ اسی تسلسل میں زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم افغان مہاجرین کی تین دہائیوں کے بعد افغانستان واپسی کے فیصلے کو ’’ دیر آید درست آید‘‘ سمجھتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ جب بھی وطن عزیز کی سلامتی کو خطرے سے دوچار کرنے کی کوشش کی جائے، ایسی ہر کوشش کا منہ توڑ جواب دیا جائے کہ ہم اپنے وسائل سے سو سال تک بھی جنگ لڑسکتے ہیں، مگر کیا افغان عبوری حکومت خطے کی صورت حال اور معاشی مسائل کا تن تنہا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتی ہے؟

جواب دیں

Back to top button