آج کے کالمغلام مصطفی

عقیدہ ختم نبوت کے علمبردار حافظ خادم حسین رضویؒ

غلام مصطفی

علامہ مولانا حضرت خادم حسین رضویؒ 22 مئی 1966 کو پنڈی گھیب، ضلع اٹک، پنجاب میں پیدا ہوئے، آپ کے والد کااسم گرامی حاجی لعل خان اعوان مرحوم ہے۔ آپ کا خاندان اعوان برادری سے تعلق رکھتا ہے۔آپ 19 نومبر 2020 کو 54برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔آپ کے انتقال کے بعد آپ کے صاحبزادے سعد حسین رضوی کو تحریک لبیک کا سربراہ مقرر کیا گیا جو آج بھی تحریک لبیک کے سربراہ ہیں۔ آپ اردو، پنجابی، عربی اور فارسی روانی کے ساتھ بولا کرتے تھے۔مرحوم اسلامی مصنف اورایک سچے عاشق رسول ﷺ اور عقیدت ختم نبوت کے حقیقی علمبردار تھے اورمرتے دم تک اس پر قائم بھی رہے۔آپ کی زندگی کامقصد اور آپ کی تقریروں سے اندازہ ہوتاہے کہ آپ آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عقیدت ومحبت رکھتے تھے،‘ ایک بہترین قاری بھی تھے، جب آپ قرآن سناتے یعنی قرأت فرماتے تو سننے والوں پر سحر طاری کردیتی اور ان کی ساری توجہ آپ کی جانب مائل ہوجاتی، علامہ رضوی صاحب کو قرآن و حدیث پر عبور حاصل تھا اس کے علاوہ امام احمد رضا خان بریلویؒ اور علامہ اقبالؒ کے اشعار کو اپنی تقریروں میں ضرور شامل کیا کرتے تھے،جس سے اندازہ ہوتاہے کہ آپ کے دل میں عشق رسول ﷺ کس قدر موجود تھا،آپ کی تقریریں عام آدمی سے لیکر ایک عالم تک بڑی گہرائی سے سنتا اور اپنی دینی معلومات میں اضافہ کرتا، آپ کی تقریروں میں بہت گہرے اثرات تھے اور یہ بات بھی حقیقت ہے کہ آج کے پرفتن دور میں بھی مسلمانوں کے دلوں میں عشق رسول ﷺ کی شمع جلانے اورعقیدہ ختم نبوت کوپختہ اور استقامت کے ساتھ جوڑے رکھنے میں آپ کا بہت اہم اور ناقابل تردید کردار ہے اور آپ کی دینی وملی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھاجائے گا۔ علامہ خادم حسین رضوی ؒ کو گہرائی سے سننے والا کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہوگا جس کے دل میں عشق رسولﷺ کی شمع نہ جلی ہو‘ جس کا عقیدہ ختم نبوت مضبوط نہ ہوا ہو۔ دراصل علامہ رضوی نے قادیانیوں کے پس پردہ جھوٹ پر مبنی عقائد کوعام آدمی کے سامنے فاش کرکے رکھ دیا، یوں سمجھ لیجئے کہ موجودہ دور میں اگر کسی نے سب سے زیادہ عشق رسول ﷺ اور ختم نبوت کابڑی خوبصورتی کے ساتھ پرچار کیا ہے تووہ علامہ مولانا خادم حسین رضوی(مرحوم)ہی ہیں۔
آپ کابچپن گاؤں میں ہی گزرامرحوم آخری دم تک سادہ طبیعت رہے۔ آپ کی والدہ ایک سادہ وضع کی نیک خاتون تھیں۔ آپ فرماتے ہیں ”سچ پوچھو تو عشق رسولﷺ کی سوغات مجھے اپنی والدہ سے ملی ہے، میری والدہ اٹھتے بیٹھتے ہر بات میں ”میں صدقے یارسول اللہ ﷺ“ کہا کرتی تھیں۔ یہ جملہ بچپن سے ہی میری زندگی کامقصد بن گیا۔ علامہ اقبال نے بھی اپنے ایک فارسی شعر میں فرمایاہے:”یہ جوعشق مصطفی ﷺ مجھے ملاہے یہ میری ماں کی گود سے ملاہے“ او ر افسوس کہ یہ چیزیں سکولوں میں نہیں سکھائی جاتیں۔
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی، مقامی سکول میں چار کلاسیں پڑھیں۔ اس کے بعد دینی تعلیم کے لئے ضلع جہلم چلے گئے اس وقت آپ کی عمر بمشکل آٹھ برس تھی اور یہ1974 کی بات ہے۔ جب آپ جہلم پہنچے تو اس وقت تحریک ختم نبوت اپنے عروج پر تھی اور اس کی وجہ سے جلسے جلوس اور پکڑ ودھکڑکاعمل چل رہاتھا۔ جہلم میں علامہ صاحب کے گاؤں کے استاد حافظ غلام محمد موجود تھے جوانہیں جامعہ غوثیہ اشاعت العلوم عید گاہ لے گئے۔یہ مدرسہ قاضی غلام محمودکاتھا جو تاجدار گولڑہ حضرت پیرمہر علی شاہ کے مرید خاص تھے۔ وہ خود خطیب وامام تھے اس مدرسہ کے منتظم ان کے بیٹے قاضی حبیب الرحمن تھے۔ مدرسہ میں حفظ قرآن مجید کے لئے استاد قاری غلام یسٰین تھے جن کا تعلق ضلع گجرات سے تھا اور وہ آنکھوں کی بینائی سے محروم تھے۔قرآن مجید کے ابتدائی بارہ سپارے جامع غوثیہ اشاعت العلوم میں حفظ کئے اور اس سے آگے کے اٹھارہ سپارے مشین محلہ نمبر ایک کے دارالعلوم اہلسنت میں حفظ کئے۔ آپ کو قرآن پاک حفظ کرنے میں چار سال کاعرصہ لگا۔ جب آپ کی عمربارہ برس ہوئی تو دینہ ضلع گجرات چلے گئے اور وہاں دوسال قرأت کی تعلیم حاصل کی۔قرأت کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد1980 میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے لاہور چلے گئے۔ وہاں آپ نے شہرہ آفاق دینی درس گاہ جامعہ نظامیہ لاہور میں درس نظامی کی تعلیم حاصل کی۔ 1988 میں درس نظامی سے فارغ التحصیل ہوئے۔ مادری زبان پنجابی ہونے کے باوجود آپ کو عربی، اردو اور فارسی پر مہارت حاصل تھی۔رضوی صاحب علامہ اقبال سے بہت متاثر تھے اور اقبال کا گرویدہ تھے۔ مولائے روم کے بارے میں علامہ اقبال کہتے ہیں‘میں مولاناروم کے مئے خانے سے عشق رسول ﷺ کی وہ مئے لایاہوں جس کی مستی کے آگے انگور کی شراب کوئی حیثیت نہیں رکھتی“۔ آپ کا تعلق سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں حضرت خواجہ محمد عبدالواحد المعروف حاجی پیر صاحب ؒ (ضلع جہلم) سے ہے اور آپ انہی کے ہاتھ بیعت بھی ہوئے۔ آپ محافظ ختم نبوت وناموس رسالت امیر المجاہدین، شیخ الحدیث والتفسیر تھے۔ حضرت علامہ حافظ خادم حسین رضویؒ کاچہرہ روشن تھا، عبادت وریاضت اور سجود کے نور سے منور پیشانی، خوبصورت آنکھیں، علم وعمل کو وقار دینے والی خوبصورت شخصیت کے مالک تھے۔
آپ کا سیاست میں آنے کا سبب ممتاز قادری کی سزائے موت تھی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قائداہلسنت امام شاہ احمد نورانی صدیقیؒ کے وصال کے بعد سیاسی طور پر اہل سنت میں ایک خلاء پیدا ہوگیاتھا۔ اہل سنت کی پاکستان میں اکثریت کے باوجود کوئی خاص سیاسی نمائندگی نہیں تھی۔ جب آپ نے سیاست میں آنے کااعلان کیا تو اہل سنت کا بکھرا ہوا شیرازہ آپ کے گرد پروانہ وار جمع ہونے لگا۔ آپ کی سیاسی جماعت ٹی ایل پی (تحریک لبیک پاکستان) کے نام سے 26جولائی2017 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈ ہوئی۔ اس جماعت کامنشور ہے”رسول اللہ کا دین تخت پر لانا“ جب تک حضورﷺ کادین تخت پر نہیں آئے گا اس وقت تک پاکستان کا ایک حقیقی فلاحی و اسلامی ریاست کاتصور جس کاخواب قائداعظم اور علامہ اقبال اور کروڑوں مسلمانوں نے دیکھا تھا وہ شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ بہت ہی قلیل عرصے میں آپ نے صرف پاکستان نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی توجہ حاصل کرلی۔ 2016 میں توہین مذہب کے قانون کے حق میں ریلی نکالنے پر لاٹھی چارج کیا گیا اور گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔ 2017 میں حکومت نے قانون ختم نبوت کی ایک شق میں الفاظ بدل دیئے جس پر ہر طرف سے صدائے احتجاج بلند ہوئی۔ لیکن حضرت نے بیانات کی بجائے عملی قدم اٹھایا۔2018 میں جب ہالینڈ نے حضورﷺ کے خاکوں کی نمائش کی گستاخی کی تو آپ نے دوبارہ لاہور تا اسلام آباد مارچ کیا اور دھرنا بھی دیا۔ وفات سے چند دن پہلے بھی آپ نے دھرنا دیا۔ اس بار آپ کامطالبہ فرانس کے سفیر کو پاکستان سے نکالناتھا کیونکہ اس مرتبہ فرانس نے سرکاری طور پر گستاخانہ خاکوں کی حمایت کی تھی۔ سیاست اورالیکشن میں حصہ لینے کی بات کی جائے تو2018 کے انتخابات میں تحریک لبیک پاکستان نے بھرپور حصہ لیا اور سندھ اسمبلی کی دوسیٹیں بھی حاصل کیں، حالانکہ سب جانتے ہیں کہ تحریک لبیک کا بہت بڑا ووٹ بینک ہے اور یہ کوئی چھپی ہوئی بات بھی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود تحریک لبیک مذہبی اعتبار سے پہلی اور سیاسی اعتبار سے تیسری قوت بن کرابھری اور آج یہ تحریک لبیک تمام تر حالات کی سختیوں کے باوجود پورے پاکستان میں پھیل چکی ہے اور کونسلر سے لیکر ایم اے تک تمام سیٹوں پر انتخابات میں امیدوار کھڑے کرتی ہے۔ 19نومبر2023 سے لاہور میں ان کا تیسرا عرس منایاجارہاہے اور اس عرس میں شرکت کرنے کے لئے نہ صرف اندرون ملک سے قافلے لاہور پہنچ رہے ہیں بلکہ بیرونی ممالک سے بھی عقیدت مند اس عرس کی تقریب میں شرکت کے لئے آرہے ہیں۔ آخر میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ مرحوم جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرمائے اور تحریک لبیک کو دینی مقصد میں کامیابی عطافرمائے۔ آمین

جواب دیں

Back to top button