چترال کی نمکین چائے

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
شوگر کی موزی بیماری سے آگاہی اور بچاؤ کے عالمی دن کی یاد میں کراچی کی ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز نے ایک اہم سیمینار کا انعقاد کیا جس میں ایک حیران کن انکشاف ہوا کہ شوگر کے مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان پہلے نمبر پر آگیا ہے جو کہ عالمی ادارہ صحت اور پاکستان دونوں کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ حال ہی میں منظر عام پر آنے والے ایک تحقیقی جائزہ تحریری صورت میں سامنے آیا ہے جسے مئی کے وسط میں یونیورسٹی آف جارجیا کے ورلڈ آف سٹیٹسٹکس انسٹی ٹیوٹ کے ذریعے شائع کیا گیا ہے، اس تحقیقی جائزے نے ایک چونکا دینے والی حقیقت پر روشنی ڈالی ہے۔ جس میں پاکستان کو دنیا بھر میں شوگر کی بیماری سے متاثرہ افراد کا سب سے زیادہ تناسب رکھنے والا ملک قرار دیا گیا ہے، جو کہ حیران کن طور پر 30.8 فیصد اور ممالک کی فہرست میں پاکستان پہلے نمبر پر ہے۔ پاکستان کے بعد بالترتیب کویت 24.9 فیصد اور مصر 20.9 فیصد کے ساتھ دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔
پاکستان کے بارے میں یہ سنگین اعداد و شمار ذیابطیس کی وبا کی شدت پر روشنی ڈالتے ہیں، شوگر کی موزی بیماری ایک ایسی مصیبت ہے جو عالمی سطح پر ہر پانچ سیکنڈ میں ایک انسانی جان لے لیتی ہے، جس میں عالمی ادار? صحت کی رپورٹ کے مطابق سالانہ 6.7 ملین اموات ہوتی ہیں۔ صرف پاکستان میں ذیابطیس کے مریضوں کی تعداد 33 ملین سے تجاوز کر گئی ہے۔ اس بیماری کو تیزی سے بڑھنے کے پیچھے اسباب کا پتہ لگانے والے ماہرین نے کئی اہم عوامل کی نشاندہی کی ہے۔ ان میں خوراک میں چربی کا زیادہ استعمال، جسمانی سرگرمیوں کی کم ہوتی سطح، موٹاپے کی بڑھتی ہوئی شرح، غیر منظم طرز زندگی، اور سماجی و اقتصادی چیلنجز شامل ہیں۔
سیمینار میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی، این آئی سی وی ڈی کے پروفیسر سعید اے مہر، پروفیسر طارق فرمان، بریگیڈیئر (ر) شعیب احمد، ڈاکٹر نثار احمد سیال، پروفیسر زیبا حق، علی بلوچ اور پروفیسر اختر سمیت طبی شعبے کی ممتاز شخصیات نے شرکت کی۔ ان ماہرین صحت کی اجتماعی مہارت ایک متفقہ نتیجے پر اکٹھی ہوئی جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
پاکستان میں ذیابطیس کے کیسز کی بڑھتی ہوئی تعداد ایک خطرناک سگنل کی نمائندگی کرتی ہے جس کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت ہے۔
سیمینار میں موجود ماہرین کی گفتگو کا مرکز طرز زندگی میں بہتری اور غذائی ایڈجسٹمنٹ پر مشتمل کثیر جہتی اقدامات پر زور تھا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ذیابطیس کے مریضوں کو دل کا دورہ پڑنے کے خطرے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس سے خون میں شکر کی بلند سطح کے مضر اثرات کو کم کرنے کے لیے شوگر کی ناگزیر ضرورت پر زور دیا جاتا ہے۔
سیمینار میں پیش کردہ سفارشات میں سب سے اہم کراچی سے چترال تک ملک گیر مہم کا آغاز تھا۔ یہ مہم ذیابطیس سے متعلق علامات، اثرات، اور بچاؤ کے طریقہ کار کے بارے میں عوام کو جامع طور پر روشناس کرنے کے لیے کام کرے گی۔ وقت کی اہم ضرورت یہ ہے کہ معلومات کو وسیع پیمانے پر پھیلایا جائے، صحت کے اس بڑھتے ہوئے بحران سے نمٹنے کے لیے بیداری کو فروغ دیا جائے۔
سیمینار کے دوران جو اجتماعی حکمت عملی کا اشتراک کیا گیا وہ ایک مشترکہ کوشش کے لیے ایک واضح کال کے طور پر کام کرتا ہے۔ سیمینار کا یہ ایجنڈا ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیتا ہے جو تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، صحت پالیسی میں اصلاحات اور کمیونٹی کی شمولیت پر محیط ہو۔ افراد کے لیے اس بیماری کے بارے میں آگاہی مہم شروع کی جائے۔ صحت مند طرز زندگی کو فروغ دیا جائے، اور سماجی و اقتصادی تفاوت کو دور کیا جائے، پاکستان میں ذیابطیس کی وبا کو روکنے کے لیے حکومتی سطح پر مزید اقدامات بھی شروع کیے جائیں۔
شوگر کے تناسب کے حساب سے پاکستان کے شمالی علاقوں اور چترال و کالاش کی بات کی جائے تو ایک حیران کن صورت حال سامنے آئی ہے کہ یہاں کے لوگوں میں شوگر کی بیماری نہ ہونے کے برابر ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہاں کے لوگوں سیدھا سادہ طرز زندگی ہے۔ یہاں کے لوگ بالکل سادہ خوراک کھاتے ہیں اور پہاڑی علاقوں میں کام کرتے ہیں، پیدل چلتے ہیں اور چشموں کا صاف شفاف پانی پیتے ہیں، دیسی خوراک کھاتے ہیں اور ایک خاص بات یہ ہے کہ یہاں کے لوگ میٹھی چائے کی بجائے نمکین چائے پیتے ہیں جو کہ ان کو ابھی تک شوگر کی موزی بیماری سے بچایا ہوا ہے۔ جوکہ شمالی پاکستان اور چترال و کالاش کے بارے میں شوگر کی بیماری کے حوالے ایک خوش آئند بات ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ ذیابطیس کی بیماری سے نمٹنے کے لیے ایک بھر پور حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے۔ طبی پیشہ ور افراد، پالیسی سازوں، ماہرین تعلیم، اور عام عوام کے درمیان تعاون کو فروع دیا جائے۔ حکومت اور عوام دونوں مل جل کر اس موزی بیماری کے بارے میں بیداری پیدا کرکے اور فعال اقدامات کو اپناکر پاکستان صحت کے اس بڑھتے ہوئے بحران کو روکنے میں کامیاب ہو سکتا ہے اور اپنے شہریوں کے لیے ایک صحت مند اور زیادہ لچکدار مستقبل کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا سکتا ہے جو کہ وقت کی اشد ضرورت ہے۔