آج کے کالمغلام مصطفی

سیاست کے بعد کرکٹ ٹیم کا منظر نامہ بھی تبدیل

غلام مصطفی
پاکستانی سیاست میں تبدیلیوں کے بعد اب پاکستان کرکٹ بورڈ میں بھی تبدیلیاں شروع ہوچکی ہیں۔جس طرح ہر مرتبہ عام انتخابات سے قبل نئے اتحاد اور نئی سیاسی جماعتیں وجود میں آتی ہیں اسی طرح پاکستان میں کرکٹ ورلڈ کپ کے بعد قومی کرکٹ میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی جاتی ہیں، معذرت کے ساتھ ہم نے اب تک اپنے آپ کو ایک نالائق قوم ثابت کیا ہے۔جوکام ہمیں پہلے کرناہوتاہے اسے ہم وقت گزرکے بعد کرتے ہیں جس سے یوں محسوس ہوتاہے کہ شاید ہم اگلے ورلڈ کپ کے بعد بھی اسی قسم کے فیصلے کررہے ہوں گے۔کرکٹ ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کی بدترین شکست کے بعد پی سی بی نے اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے غیر ملکی کوچنگ سٹاف کوپاکستان کرکٹ ٹیم کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کردیا ہے۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے اپنے تمام کوچنگ سٹاف کے عہدے بھی تبدیل کردیئے ہیں جبکہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم نے تینوں فارمیٹ سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی بدترین کارکردگی کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے ٹیم سمیت ساری کرکٹ کا منظر نامہ ہی تبدیل کر تے ہوئے مکی آرتھر سمیت قومی ٹیم کا کوچنگ سٹاف برطرف کردیا۔ کرکٹ بورڈ نے شان مسعود کو ٹیسٹ جبکہ شاہین آفریدی کو ٹی ٹوینٹی کا کپتان مقرر کیاہے تاہم ون ڈے کپتان کا اعلان مناسب وقت پر کئے جانے کا امکان ہے۔ سرفراز احمدپاکستان کے پیشہ ور کرکٹر اور محنتی وکٹ کیپر بلے باز ہے جو قومی کرکٹ ٹیم کے تمام فارمیٹس میں پہلے بھی کپتان رہ چکے ہیں۔ 36سالہ سرفراز احمد میرٹ پر پورا بھی اترتے نظر آتے ہیں اور سرفراز احمد بہترین چوائس ہوسکتے ہیں۔ناقص پرفارمنس اوربڑھتے دباؤ کی وجہ سے بابر اعظم نے تینوں فارمیٹس کی کپتانی چھوڑدی ہے۔ ادھر مکی آرتھر کی جگہ محمد حفیظ ٹیم ڈائریکٹر مقرر کردیئے گئے ہیں۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کی ورلڈ کپ میں کارکردگی بتارہی ہے اور یہ حقیقت بھی کہ جہاں میرٹ کا قتل کیا جائے گا، وہاں اسی قسم کے نتائج سامنے آئیں گے،محض رشتوں کی بنیاد پر،کرپشن اور سیاسی اثرورسوخ کی بنیاد پر قائم ہونے والی پاکستانی کرکٹ ٹیم کا انجام آخریہی ہوناتھا،ماموں بھانجا، داماد سسر، چچا بھتیجا،سفارش، پرچی سسٹم، رشوت، جوا، سٹہ، میرٹ کے قتل سمیت دیگر اقدامات یہ سب کچھ پاکستان کرکٹ میں عام سی بات لگتی ہے۔ جب جس کا جہاں کا جی چاہتاہے اسے تعینات کر دیا جاتا ہے۔ کچھ عرصے کے لئے پاکستان کرکٹ ٹیم سے توجہ ہٹاکر قومی کھیل ہاکی اور فٹ بال پر توجہ دی جائے جس کا برا حال کردیا گیاہے، کرکٹ میں زیادہ پیسہ ہونے کی وجہ سے ہر کوئی اس میں دلچسپی لے رہاہے۔ ناقص پرفارمنس دینے والے کرکٹ کھلاڑیوں کو دی گئی تمام مراعات واپس لی جائیں اوران پر بھاری جرمانے عائد کئے جائیں کیونکہ پاکستان کے غریب عوام کے خون پسینہ کی کمائی سے جمع کرائے گئے ٹیکسوں کا پیسہ ایسے کھلاڑیوں پر خرچ نہیں کرناچاہیے جنہیں نہ اپنی عزت کا خیال ہے اور نہ ہی ملک کا اور نہ ہی عوام کا۔ یہ کرکٹ نہیں کھیل رہے بلکہ پی سی بی کے ساتھ گیم کررہے ہیں۔دوسری طرف”تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے“جیسی پوسٹیں سوشل میڈیا پرکون لوگ شیئر کررہے ہیں؟اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہئیں، اس قسم کی پوسٹوں کے ذریعے پاکستانی عوام کو بیوقوف نہیں بنایاجاسکتا اور پھر بلاوجہ کیوں ہارو؟ ملک کی اپنی عزت اور وقار ہے 24کروڑ عوام کی عزت کامسئلہ ہے۔ ان پوسٹوں سے بظاہر تو یہی محسوس ہوتاہے کہ کھلاڑیوں نے پیسے دیکر ایسے بندے سوشل میڈیا پر ہائیر کئے ہوئے ہیں جو ان کرکٹرز کے لئے کام کرتے ہیں اور ان کی ناقص پرفارمنس پر ایسی پوسٹیں لگانا شروع کردیتے ہیں جس سے محسوس ہوتاہے کہ ہمارے کرکٹر جیسی چاہے پرفارمنس دیں انہیں نہ تو کوئی ٹیم سے باہر کرسکتا ہے اور نہ ہی کوئی ان سے پوچھ گچھ کی جاسکتی ہے۔ یہ تاثر ختم ہوناچاہیے۔ پی سی بی حکام کواس طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ہمارے کرکٹر کی ناقص پرفارمنس کے باوجود سوشل میڈیا پر کچھ افراد ا یسی پوسٹیں شیئر کرتے ہیں جن سے محسوس ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے کرکٹر سے پیسے لئے ہیں اوروہ ان کی اندھی حمایت کے لئے ہر وقت سوشل میڈیا پرپوسٹیں لگاتے رہتے ہیں۔ جب پوری ٹیم کی کارکردگی بدترین ہے اور سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے تو ایسے اس قسم کی پوسٹیں لگانا شرمناک عمل ہے،بجائے اس کے کہ ہمیں ان کی مذمت کرنی چاہیے تاکہ قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کو کچھ ندامت ہو اور ان کا ضمیر جاگے، الٹا ہم انہیں ہارنے پر شہ دے رہے ہیں، یہ طریقہ کار بالکل غلط ہے، ایک باوقار قوم کے ساتھ بھونڈا مذاق ہے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کی ورلڈکپ میں مجموعی اور انفرادی پرفارمنس کو دیکھتے ہوئے افسوس ہوتاہے اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتاہوں کہ کاش ورلڈ کپ میں پاکستان کی بجائے ویسٹ انڈیز کی ٹیم ہوتی تو زیادہ بہتر تھاکیونکہ موجودہ کرکٹ ٹیم نے جس طرح ملک کی بدنامی کروائی ہے اس سے یہی بہتر تھا کہ ہم ورلڈ کپ میں جاتے ہی نہیں اور اس کے لئے ہمارے پاس بہترین موقع بھی تھا، ہم بالکل اسی طرح کرتے جس طرح دیگر ٹیمیں پاکستان میں کرکٹ کھیلنے پر سکیورٹی کے مسائل کو جواز بناتی ہیں اور یہاں کرکٹ کھیلنے سے انکار کردیتی ہیں اسی طرح پاکستان کرکٹ ٹیم بھی بھارت میں ہونے والے ورلڈ کپ میں سکیورٹی کا بہانہ بناکر جانے سے انکارکرسکتی تھی لیکن ہم نے بڑے پن کا مظاہرہ کیا اور سپورٹس مین سپرٹ کاکردار ادا کرتے ہوئے بھارت میں کرکٹ ورلڈ کھیلنے چلے گئے۔ اس مرتبہ یہ نہیں ہوسکتا کہ وہاں جوکچھ بھی ہوا اسے قوم بھول جائے ایسا اب نہیں ہوگا بلکہ ان سارے کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچناچاہیے جن جن نے پاکستان کی ہار میں کسی نہ کسی طرح معاونت کی ہے،چاہے وہ ان کی ناقص پرفارمنس کی وجہ ہو یا پھر کسی وجہ سے۔انہیں نہ صرف ان عہدوں سے برطرف کرناچاہیے بلکہ انہیں سخت سے سخت سزائیں بھی ملنی چاہیے تاکہ آئندہ کوئی بھی ملک کے وقار سے کھیلنے کی ہمت نہ کرسکے۔ہماری کرکٹ کودیکھ کر دنیا ہم پرہنس رہی ہے۔ایسی ایسی ٹیمیں بھی ورلڈ کپ میں ہم سے آگے نکل گئی جن کی کل آبادی ہمارے کسی ایک صوبے کے برابر بھی نہیں ہوگی، اس کامطلب یہی ہے کہ وہاں میرٹ کو ترجیح دی جاتی ہے ورنہ پاکستان 24کروڑ عوام کا ملک ہے اور یہاں کرکٹ کابے پناہ ٹیلنٹ پایاجاتاہے۔یہاں بچے سے لیکر بوڑھے تک سب کرکٹ کو سمجھتے ہیں۔ خواتین کی کرکٹ ٹیم بھی موجود ہے اور یہاں خواتین میں کرکٹ کھیلنے کا رحجان بھی اور ٹیلنٹ بھی موجود ہے لیکن کیونکہ پاکستانی معاشرے میں عورتوں کی نسبت مردوں کو ہر شعبے میں زیادہ سپورٹ کیاجاتاہے، لہٰذا یہی وجہ ہے کہ عورتوں کے لئے کھیلوں سمیت دیگر شعبوں میں آگے بڑھنے کے مواقع مردوں کی نسبت کم ہیں لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ عورتوں کو مواقع نہیں دیئے جاتے، پاکستان میں خواتین کواپنی مرضی کا شعبہ اختیار کی مکمل آزادی حاصل ہے اور والدین بھی لڑکیوں کو سپورٹ کرتے ہیں، لیکن کیونکہ ہمارے معاشر ے میں خواتین کے حوالے سے جتنی آزادی میسر ہے اس کے دائرے میں رہتے ہوئے خواتین ہر شعبے میں ترقی کررہی ہیں۔

(جاری ہے)

جواب دیں

Back to top button