تعلیم، ڈگری یا کردار سازی
تحریر: عاصمہ حسن
(گذشتہ سے پیوستہ)
تعلیم یافتہ، سمجھدار ہونے کے باوجود قانون توڑنا، سڑک پر چلتی گاڑی سے کوڑا کرکٹ باہر پھینکنا، تھوکنا، جگہ جگہ گندگی کا ڈھیر لگانا، اپنی غلطی یا گناہ کی ذمہ داری قبول نہ کرنا،وعدہ خلافی کرنا، دوسروں پر الزام عائد کرنا، لوگوں کی عزت اورپگڑی اچھالنا، ہماری روش بنتا جا رہا ہے۔ یہی ہمارے سیاستدان،قانون دان اور افسران کرتے ہیں۔ اپنی جیبیں گرم کرنا اور لوگوں کا حق مارنا، ان کے خون پسنے کی کمائی پر قبضہ جمانا، دلیری سے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ میں تبدیل کرنا، سارا کا سارا معاشرہ ایک ہی ڈگر پر چل رہا ہے، کوئی اپنا فرض نبھانے اور ذمہ داری اٹھانے کو کسی کے راز کی پاسداری کرنے کو تیار نہیں بلکہ اس کو اچھالنے اور وائرل کرنے میں ہی فخر محسوس کرتے ہیں۔
پہلے پڑھے لکھے شخص کو اس کی نفاست اور انفرادیت کی بدولت ہم مجمع میں بھی پہچان لیتے تھے لیکن اب حال یہ ہے کہ تہذیب چھو کر بھی نہیں گزرتی، کسی کی شکل پر نہیں لکھا ہوتا کہ کتنا اور کہاں سے پڑھا ہے،یا کس گھرانے سے تعلق ہے، بلکہ ہمارا اٹھنا، بیٹھنا، بات کرنے کا سلیقہ، اخلاق و کردار، شخصیت کی جازبیت، پہننے،اوڑھنے کا ڈھنگ، رویہ اور برتاؤ بتاتا ہے کہ ہمارا تعلق کس خاندان سے ہے اور تربیت کن بنیادوں پر کی گئی ہے۔
تعلیم کا مقصد ڈگری کا حصول نہیں بلکہ کردار سازی اور شعور کی منزلیں طے کرنا ہونا چاہیے، کیونکہ تعلیم کی شمع ہی شعور اور آگاہی فراہم کرتی ہے۔ انسان کے کردار کو اپنے نور سے نکھارتی ہے، علم تو ہمیں دانائی اور طاقت ور ہونے کے درجے پر فائز کرتا ہے۔ ہم تعلیم یافتہ اور ڈگری یافتہ تو ہو گئے لیکن انسانیت کی قدروں اور معیار سے گر گئے ہیں۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ کے بقول: علم تلوار سے زیادہ طاقتور ہے۔
ہم اسناد، ڈگریوں کا ڈھیر اس لئے لگاتے ہیں کہ دوسروں پر اپنی معتبری ثابت کر سکیں، انگریزی بول کر رعب جھاڑ سکیں، لوگوں کو مرعوب کر سکیں، دولت کا ڈھیر لگا سکیں، ملک سے باہر جا سکیں تاکہ اپنے ملک کے مسائل سے فرار حاصل کر سکیں۔ اب وقت کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی سوچ کواوراپنے فرسودہ تعلیمی نظام کو تبدیل کریں اور یہ کام ہم سب نے مل کر کرنا ہے، ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہماری دولت، ہمارا جمع کیا گیا مال و زر سب اسی دنیا میں رہ جائے گا یاد رہے گا تو ہمارا کردار جو مر کر بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ رہے گے۔ تعلیم یافتہ ہونے سے زیادہ انسان اور انسانیت کا ہونا ضروری ہے۔
بقول علامہ اقبال:
منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر
مل جائے تجھ کو دریا تو سمندر تلاش کر
طلباء ہی پاکستان کا مستقبل اور معمار ہیں، اگر ان کی تربیت اعلی معیار پر نہیں ہو گی تو ہماری آنے والی نسلیں بھی تباہ ہو جائیں گی۔ نظام تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے تمام اداروں، والدین اور حکومت کو مل کو کام کرنا ہو گا ورنہ تعلیم یافتہ معاشرہ ڈگریاں ہاتھ میں پکڑ کر تباہی کے دھانے پر آ کھڑا ہو گا اور پھر پچھتاوے کے سوا ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں آئے گا۔