آج کے کالمساجدہ صدیق

نظام لوھار،ایک گمنام پنجابی ہیرو

ساجدہ صدیق

(گذشتہ سے پیوستہ)
یہ بات سن کر انگریز سرکار کانپ اٹھی۔ عوام کے نزدیک نظام لوہار کسی ایک شخص کا نہیں بلکہ انگریزوں کے خلاف پنجاب کی مزاحمت کا علم بن گیا تھا۔ نظام لوہار اور سوجھا سنگھ ایک رات پولیس نے تحصیل پٹی کے ایک قبرستان پر چھاپہ مارا، مگر نظام لوہار اس اڈے کو چھوڑ کر موضع سوھی کی طرف چل دیا۔ راستے میں اس کی ملا قات علاقے کے مشہور باغی سوجھا سنگھ کی ماں ”جیتاں“ سے ہوئی جو بین کرتی جارہی تھی۔ نظام لوہار نے وجہ پوچھی تو ”جیتاں“ نے بتایا کہ سوجھا سنگھ کو پولیس گرفتار کرکے لے گئی ہے۔ نظام لوھار نے جیتاں کو تسلی دی اور خود سوجھا سنگھ کو چھڑانے کے لئے ”ٹبہ کمال چشتی“ کی طرف چل دیا۔ پولیس سے مقابلے کے بعد نظام لوہار نے سوجھا سنگھ کو چھڑالیا۔ سوجھا سنگھ کی ماں جیتاں نے نظام کو اپنا بیٹا بنالیا اور وہ اسی کے پاس رہنے لگا۔ اس کے بعد نظام لوہار اور سوجھا سنگھ نے مل کر اوپر تلے انگریزوں کے چار اعلیٰ پولیس افسروں کو قتل کر دیا۔ وہ انگریز حکومت کے لئے دردسر بن گئے۔ ادھر لاہور اور قصور کے در میانی علاقے ماجھے کے انقلابی ”جبرو جٹ“ کو نظام لوہار کے کارناموں کی خبرہوئی تو وہ بھی آکر نظام لوہار سے مل گیا۔ اس طرح نظام لوہار، سوجھا سنگھ اور جبرو جٹ نے مل کر انگریز حکومت کے خلاف ایک منظم تحریک کا آغاز کیا جس کا نام تھا(یعنی پنجاب چھوڑ دو تحریک)۔ آہستہ آہستہ پنجاب بھر سے باغی نظام لوۃار کی سربراہی میں اس تحریک کا حصہ بنتے گئے اور انگریز سرکار کے خلاف مسلح کارروائیاں شروع کر دیں اور علاقے بانٹ کر کسانوں کو ساتھ ملانے کے لئے راتوں کو گاؤں گاؤں پھرنے لگے۔ آخر فیصلہ ہوا کہ میلوں اور عرسوں میں جا کر انگریز پولیس افسروں کو قتل کیاجائے اور یہ کہہ کر قتل کیاجائے کہ اس تحریک کے نتیجے میں سینکڑوں انگریز افسروں اور فوجیوں کو قتل کیا گیا اور ان سے مال اسباب لوٹ کر غریبوں میں تقسیم کیا گیا۔”پنجاب چھڈ دیو تحریک“ کے سلسلے میں ایک دن نظام لوہار ستلج پار بسنت کے میلے پر جارہا تھا کہ راستے میں اسے پیاس لگ گئی۔ اس نے میلے میں جاتی ہوئی ایک لڑکی سے لسی کا کٹورا مانگا۔ لڑکی نے نظام لوہار کو لسی دی۔ نظام لوہار نے خوش ہو کر اسے کچھ رقم دینی چاہی مگر لڑکی نے یہ کہہ کر رقم لینے سے انکار کر دیا کہ یہ نظام لوہار کا علاقہ ہے، یہ رقم میرے کس کام کی، یہ رقم تو وہ چھین لے گا۔ اس پر نظام لوہار نے اپنا آپ ظاہر کر دیا اور کہا کہ پنجاب کی ہر لڑکی میری بہن ہے، میں تو صرف انگریزوں کے خلاف ہوں اور انہیں پنجاب سے نکالنا چاہتا ہوں۔اس لڑکی کانام”موہنی“ تھا۔ وہ میلے میں نظام لوھار سے پھر ملی اور اس کی کلائی پر راکھی باندھ دی (ہندو مذہب میں بہنیں نیک شگون کے طور پر اپنے بھائیوں کی کلائی پر ایک دھاگہ باندھتی ہیں جس کو”راکھی“ یا”رکھڑی“ کہتے ہیں)۔ پھر اس نے بتایا کہ اسی ہفتے اس کی شادی ہے۔ نظام لوہار نے اس کی شادی پر آنے کاوعدہ کیا۔ میلے سے واپس جاتے ہوئے نظام لوہار نے”انسپکٹر آئس“ کو قتل کر دیا۔ اس سے سارے میلے میں بھگدڑ مچ گئی۔ مگر اس طرح نظام لوہار کا پیغام پنجاب کے دور دراز علاقوں تک پہنچ گیا اور لوگ اس کے مقصد سے ہمدردی کرنے لگے۔نظام لوہار نے چند ساہوکاروں کی حویلیوں پر ڈاکے ڈالے، بہت سا مال اکٹھا کیا اور شادی والے دن یہ سارا مال اپنی منہ بولی بہن موہنی کو دے آیا۔ اگرچہ اسے موہنی کے گاؤں سے فرار ہونے میں بڑی مشکل پیش آئی مگر سوجھا سنگھ اور جبرو جٹ جیسے ساتھیوں نے نظام لوہار کی مدد کی اور وہ وہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔
اب نظام لوہار پنجاب کی انگریز پولیس کے لئے طعنے سے بڑھ کر خوف کی علامت بن چکا تھا۔ ایس پی جان لیو نے نظام لوہار کو پیغام بھجوا کر اس سے بات چیت کرنی چاہی۔ مگر اصل میں یہ اسے قتل کرنے کی سازش تھی۔ نظام لوہار نے اپنے اردگرد بھیس بدل کر موجود سپاہیوں کو تاڑ لیا تھا۔ چنانچہ وہ ایس پی جان لیو کو اپنی گولی کا نشانہ بنا کر نکل بھاگا اور تین ماہ تک چھانگا مانگا کے علاقے میں جبرو جٹ کے پاس چھپا رہا۔ انگریز سرکار نے”پنجاب چھڈ دیو تحریک“ کو ناکام بنانے کے لئے ایک شاطر چال چلتے ہوئے ایک بدکردار لڑکی ”پچھیا ماچھن“ کو سوجھا سنگھ سے جوڑ دیا۔ ایک دن نظام لوہار سوجھا سنگھ کی ماں جیتاں کی بیماری کی خبر سن کر واپس حویلی آگیا۔ اسی اثناء میں نظام لوہار کو معلوم ہوا کہ سوجھا سنگھ ساتھ والے گاؤں ”جٹاں دا کھوہ“ کی ایک لڑکی ”پچھیا ماچھن“سے پیار کی پینگیں بڑہا رہا ہے۔ نظام لوہار کو یہ بات پسند نہ آئی، اس نے”پچھیا ماچھن“ کو بلا کر سخت سست کہا۔ نظام لوہار کا خیال تھا کہ عشق انسان کو بزدل بنا دیتا ہے اور عشق کے چکر میں سوجھا سنگھ پولیس کے ہاتھ آسکتا ہے۔
پچھیاماچھن نے سوجھا سنگھ کے کان بھرے تو وہ نظام لوھار کے خلاف ہوگیا۔ دس ہزار روپے نقد اور چار مربعے زمین کے انعام پر اسکا دل للچا گیا۔ پچھیاماچھن نے سوجھا سنگھ سے کہا تھا کہ دیکھ قتل تو نظام کر تا ہے مگر پھانسی ساتھ میں تجھے بھی ہو جائے گی۔ ایک رات نظام لوہار اپنی منہ بولی ماں جیتاں کی تیمارداری کے لئے سوجھا سنگھ کے گھر آیا۔ سوجھا سنگھ نے تھانہ بھیٹریالہ میں اطلاع دے دی کہ نظام لوہار آج ہمارے ہاں بطور مہمان ٹھہرا ہوا ہے اور کل وہ”کالے کھوہ“ واپس چلا جائے گا۔ نظام لوہار جس کمرے میں سویا ہوا تھا دو گھنٹے کے اندر اندر اسے پولیس نے گھیرے میں لے لیا اور چند سپاہی کمرے کے اوپر چڑھ کر کمرے کی چھت توڑنے میں مصروف ہو گئے۔ نظام لوہار کو پتہ چل گیا۔ اس کی گھوڑی کمرے ہی میں بندھی تھی وہ فوراً سوار ہوا۔ اس نے سر پر لوہے کا تانبیہ اوڑھ لیا تاکہ گولیوں سے بچ سکے مگر اس طرح اسے کچھ نظر نہ آرہا تھا۔ اس نے گھوڑی کو بھگانے کے لئے سیٹی ماری، گھوڑی تیزی سے دروازے کی طرف بڑھی تو لوہے کا تانبیہ دروازے کی چوکھٹ سے ٹکرا گیا۔ نظام لوہار زخمی ہونے کے بعد بیہوش ہوکر کمرے کے اندر گر پڑا۔ پھر کیا تھا، پولیس اڑتالیس گھنٹے تک اس کمرے پر گولیاں برساتی رہی، تیسرے دن نظام کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لئے قصور سول ہسپتال میں لایا گیا۔نظام لوھار کی لاش کو سول ہسپتال قصور میں پہنچانے کے بعد پولیس واپس تھانے آگئی۔ سوجھا سنگھ بھی انعام حاصل کرنے کے لئے تھانے پہنچ گیا۔ جبرو جٹ کو پولیس پہلے ہی گرفتار کر چکی تھی۔ اِدھر جب سوجھا سنگھ کی ماں جیتاں کو پتہ چلا کہ اس کا منہ بولا بیٹا نظام لوہار اس کے حقیقی بیٹے سوجھا سنگھ کی غداری کی وجہ سے مارا گیا ہے تو جیتاں کے لئے یہ ایک مشکل ترین لمحہ تھا۔ ایک طرف اس کے حقیقی غدار بیٹے کی ممتا تھی اور دوسری طرف اس کے منہ بولے دھرمی بیٹے کی شہادت کا غم تھا۔ جیتاں نے اپنے دھرمی بیٹے کے حق میں فیصلہ دے کر پنجاب دھرتی کی ایک عظیم ماں ہونے کا ثبوت دیا۔ جیتاں نے تھانے پہنچ کر سوجھا سنگھ کا سر تلوار کے وار سے تن سے جدا کر دیا اور جبرو جٹ کو گواہ بنا کر وہ تاریخی جملہ کہا جو پنجاب کی تاریخ میں امر ھو گیا۔ جیتاں نے کہا۔”سوجھیا توں مردے مردے اک ہور دکھ وی نال لے کے جا، میں تینوں 32 دہاراں نئیں بخشاں گی تے جبرو توں گواہ رئیں میں ایہنوں کیوں ماریا اے“(سوجھیا تو مرتے مرتے ایک اور دکھ بھی اپنے ساتھ لیتا جا، میں تجھے اپنا دودھ نہیں بخشوں گی اور جبرو تم گواہ رہنا کہ میں نے اسے کیوں قتل کیا)
اپنے سورما کی لاش دیکھنے اور جنازہ میں شرکت کے لئے دور دراز سے عوام ہزاروں کی تعداد میں قصور پہنچی۔ اس موقع پر حکومت نے اعلان کر دیا کہ جو شخص نظام لوھار کی نماز جنازہ میں شریک ہوگا اسے دو روپے ادا کرنے ہونگے، اس دور میں دو روپے عوام کے لئے بھاری رقم تھی۔ اس کے باوجود لوگوں نے جوق در جوق نماز جنازہ پڑھی اور نتیجے میں 35000 روپے (پینتیس ہزار روپے) اکٹھے ہوئے جو آج کے پینتیس کروڑ سے بھی زیادہ قیمت رکھتے تھے۔ حاضرین نے نظام لوہار کی قبر پر عقیدت اور احترام کے طور پر اس قدر پھولوں کی چادریں چڑھائیں کہ اسکی قبر پھولوں کا ایک پہاڑ بن گئی۔ پنجاب کے اس جوانمرد کی قبر پنجاب کے شہرقصور کے بڑے قبرستان میں موجود ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button