خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے اطمینان بخش اقدامات

خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کی اپیکس کمیٹی نے خسارے کا شکار سرکاری اداروں کی نجکاری کا عمل مزیدتیز کرنے کی ہدایت کی ہے جبکہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے پاکستان کی پائیدار معاشی بحالی میں پاک فوج کے حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کے عزم کا یقین دلایاہے۔نگراں وزیرِاعظم انوار الحق کاکڑ نے تمام متعلقہ اداروں اور حکام کو ہدایت کی ہے کہ ایس آئی ایف سی کے تحت اقدامات پر بھرپور تعاون اور محنت سے عمل کیا جائے تاکہ پاکستان نہ صرف قلیل و وسط مدتی ثمرات سے فائدہ اٹھا سکے بلکہ ملک کے وسیع تر مفاد میں طویل مدتی اقدامات کی راہ بھی ہموار ہو۔ انوار الحق کاکڑ کی زیرصدارت خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی ایپکس کمیٹی کا ساتواں اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر، نگراں کابینہ کے ارکان، نگراں صوبائی وزراءِ اعلیٰ اور متعلقہ اعلیٰ حکومتی حکام نے شرکت کی۔دوسری طرف وفاقی حکومت نے بجلی وگیس کی قیمتوں میں مزیداضافہ کرنے اور رواں مالی سال عالمی مارکیٹ میں بانڈز جاری نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نگراں وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشادا ختر نے صحافیوں کو آئی ایم ایف پروگرام اور معاشی صورتحال پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ رواں مالی سال میں بیرونی قرضے کے حصول کا ہدف حاصل کر لیں گے، عالمی مالیاتی اداروں اور شراکت داروں سے فنڈنگ مل جائے گی جس سے دسمبر میں زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ جائیں گے اس سے پاکستان کی ریٹنگ بہتر ہونے کی بھی توقع ہے۔بلاشبہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے پاک فوج کی طرف سے ملک کی پائیدار ترقی کے لئے حکومت کو مکمل تعاون کا یقین دلایاگیا ہے کیونکہ سی پیک سمیت تمام بڑے منصوبے پاک فوج کی مدد سے پایہ تکمیل کو پہنچ رہے ہیں اسی طرح خطے کی تیزی سے بدلتی صورت حال اور لمحہ بہ لمحہ ہونے والی پیش رفت کے باوجود پاک فوج نے اپنے اخراجات کو محدود رکھا ہے کیونکہ ملکی معاشی حالات اطمینان بخش نہیں ہیں بلکہ کبھی رہے بھی نہیں مگر دیکھنا چاہیے کہ سویلین حکومتیں معیشت کے لئے وہ تمام کام خوش اسلوبی سے کرتی آئی ہیں اور کیا اب بھی کررہی ہیں جس کے نتیجے میں ہماری درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافہ ہو اور آئی ایم ایف کو بار بار کیوں کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم ٹیکس نیٹ میں اضافہ کریں۔ بہرکیف ہم سمجھتے ہیں کہ ڈیفالٹ کے خطرات کے دوران بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا پیکیج موجودہ نگران حکومت اور اِس کی معاشی ٹیم کی کم مدت میں بہترین کاوشوں کا نتیجہ ہے تاہم مطمئن تبھی ہوا جاسکتا ہے جب ہم ڈیفالٹ کے خطرات سے دور چلے جائیں اور ہمیں کبھی آئی ایم ایف کے پروگرام کی ضرورت پیش نہ آئے۔ یہ سنگ میل آئی ایم ایف سے توثیق حاصل کرتے ہوئے عالمی چیلنجوں سے نمٹنے اور لچک کو مضبوط بنانے کے لئے پاکستان کی پرعزم کوششوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ مالیاتی لائف لائن ہونے کے علاوہ، اِس توثیق کے نتیجے میں بین الاقوامی سرمایہ کاربھی پاکستان کی طرف متوجہ ہوں گے کیونکہ انہیں یہاں معاشی سرگرمیاں اور سازگار حالات نظر آئیں گے لیکن ایسا ہو، اِس کے لئے ضروری ہے کہ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو واقعی معاشی حالات سرمایہ کاری کے لئے موزوں نظر آئیں۔ اگرچہ گزشتہ کئی ماہ سے پاکستان اپنے اصلاحاتی ایجنڈے کو جاری رکھے ہوئے ہے، یہ کامیاب معاہدہ، اپنے جامع نقطہ نظر کے ساتھ، نہ صرف موجودہ چیلنجوں کو آگے بڑھاتا ہے بلکہ قوم کو اس کے معاشی مستقبل میں ایک مثبت راہ پر گامزن کرتا ہے۔مگر نئی منتخب حکومت موجودہ نگران حکومت کے اقدامات کو کیسے آگے لیکر چلتی ہے اور اِس میں کیا کیا تبدیلیاں لاتی ہے، یہ نئی حکومت کی معاشی ٹیم پر منحصر ہوگا مگر ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح موجودہ نگران سیٹ اپ نے معاشی چیلنجز کو قبول کیا اور یقیناً ان میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کی ہے، نو منتخب حکومت کو ایسے ہی اقدامات کو فروغ دینا ہوگا مگر یاد رہے کہ عوام پرمعاشی بوجھ منتقل کرنے کی بجائے اُن سرمایہ داروں اور دسترس سے دور شخصیات کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے جن کو آج سے پہلے ٹیکس نیٹ میں لاتے ہوئے ہر حکومت کے پر جلتے رہے ہیں، اسی طرح کسی شعبے کی دھونس کی بالکل پرواہ نہ کی جائے اور ہر وہ سیکٹر جوٹیکس نیٹ میں آنا چاہیے مگر ٹیکس نیٹ میں نہیں ہے، اِس کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے، اور بدعنوانی کے تمام وہ راستے بند کردیئے جائیں جنہوں نے ملکی معیشت کو دیمک زدہ حالت میں لاکھڑا کیا ہے، پوری دنیا طاقت کی بجائے معیشت کی جنگ لڑ رہی ہے مگر ہم ابھی بھی اِس معاشی میدان میں کسی گنتی میں شمار نہیں ہوتے۔