جہنم سے فرار

ابراہیم صابری
اسرائیل کے اپنے پیداکردے علاقائی تنازعات نے اسرائیلی شہریوں (یہودیوں )کو مسلسل تناؤ، سلامتی کے خدشات اور فوجی خدمات کے دباؤ کا اثرکی وجہ سے شدید متاثر کیا ہے، جس کی وجہ سے اِن کی زندگی جہنم بن چکی ہے، اسرائیل کے اندر گہرے سیاسی اور معاشرتی خلیج، جیسے سیکولر اور مذہبی طبقوں کے درمیان کشیدگی نے بھی یہودیوں کو زبردست تنائو میں مبتلا کیا ہے، اِسی لئے نیتن یاہو کی پالیسیوں اور موجودہ صورتحال کو یہودی خود بھی انتہائی ناپسندیدگی سے دیکھ کر بیزاری کا اظہار کررہے ہیں۔مثلاً پہلے سے ہی پرتگالی حکام اعلان کر چکے تھے کہ ایک خصوصی اقدام کے تحت عارضی طور پر آن لائن نظام کو معطل کر کیا جارہا ہے ۔دسمبر اور جنوری میں شہریت کی درخواست یا پرتگالی پاسپورٹ کی تجدید کیلئے بالمشافہ وقت لینے کی سہولت فراہم کریں گے۔ تاہم اس بظاہر معمولی بھیڑ کے پیچھے ایک گہری حقیقت پوشیدہ ہے۔ اور اسرائیلی امور کے ماہر نیر کیوِنس کے مطابق اس ہجوم کا جمع ہونا صرف کسی رسمی کارروائی یا ادائیگی کا معاملہ نہیں بلکہ ایک بڑی سماجی حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ اسرائیلی شہریوں کی’’خاموش ہجرت‘‘ ہے، جس کا سبب یہ ہے کہ لوگ اس علاقے میں رہتے ہوئے اعتماد اور تحفظ کے احساس سے محروم ہو رہے ہیں، اس لئے وہ آہستہ آہستہ یہاں سے نکلنے لگے ہیں۔ نوجوان، جو پہلے صرف تعلیم یا سفر کیلئے دوسرا پاسپورٹ لینا چاہتے تھے، آج ایک بڑے ہجوم کا حصہ ہیں۔ یہ ہجوم اب ’’انسانی طوفان‘‘ بن چکا ہے، جو صرف سیاسی اختلافات یا عدالتی مسائل تک محدود نہیں رہا بلکہ ملک کے وجود کیلئے سنگین مسئلہ بن گیا ہے۔ ملک میں لمبی قطاریں اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہیں کہ نوجوان نسل اپنے مستقبل کو یہاں محفوظ اور روشن نہیں سمجھتی۔ وہ مایوسی کے عالم میں بیرون ملک جانے کو ترجیح دیتی ہے تاکہ انکے خوابوں کی تعبیر پا سکے۔ یہ منظرنامہ نہ صرف عوامی بے چینی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ نیتن حکومت کے مستقبل پر بھی سنگین سوالات کھڑا کرتا ہے۔
یہ قطاریں دراصل ایک بڑے اور گہرے بحران کی صرف ایک جھلک ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں اسرائیلی معاشرے کا ایک نمایاں طبقہ مقبوضہ علاقوں کو چھوڑ کر جا چکا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2022 سے 2024 کے دوران ایک لاکھ پچیس ہزار سے زائد افراد طویل عرصے کیلئے اسرائیل سے باہر منتقل ہوئے، جو اس غاصب حکومت کی تاریخ میں سب سے بڑی ہجرت سمجھی جا رہی ہے۔ اس رجحان کے پیچھے سب سے بڑی وجہ شدید معاشی دباؤ ہے۔ مہنگائی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ رہائش، خوراک اور بنیادی ضروریات عام شہری کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔ بہت سے اسرائیلی خاندان آج فوڈ سیکورٹی جیسے سنگین مسئلے سے دوچار ہیں، جبکہ ایک بڑی تعداد یہ محسوس کرتی ہے کہ اب یہ نظام ایسا نہیں رہا جو ان کو محفوظ مستقبل کی ضمانت دے سکے۔
معاشی مشکلات کے ساتھ ساتھ سکیورٹی اور سیاسی حالات نے بھی مایوسی کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ مسلسل جنگوں، حملوں اور عدم استحکام کے باعث خاص طور پر نوجوان نسل کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ مستقل خوف اور کشیدگی میں جینا اب ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے۔ سیاسی انتشار، حکومتی بحران اور عوامی مسائل حل کرنے میں ناکامی نے بالآخر بہت سے شہریوں کے دل میں حکومت کے مستقبل کے حوالے سے شدید بداعتمادی پیدا کر دی ہے۔
اسرائیلی آبادی کا بڑا حصہ جو وہاں سے نکل رہے ہیں، انکی منزل زیادہ تر یورپی اور امریکی ممالک ہیں۔ جہاں انہیں مشرقی بحیرۂ روم کے ساحلوں کے مقابلے میں زیادہ تحفظ اور بہتر معیار زندگی کی امید ہے۔ چونکہ ان میں اکثریت تعلیم یافتہ، ماہر اور نوجوان افراد کی ہے، اس انخلا کو بجا طور پر ’’اذہان کی نقل مکانی‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ یہ رجحان آبادی، معیشت اور اس حکومت کے مستقبل پر دیرپا منفی اثرات ڈالے گا۔نیز، نیتن یاہو حکومت کی بدانتظامی نے بھی اس وسیع ’’فکری طبقے کی نقل مکانی‘‘ کو شدید تر کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔’’ کنسٹ‘‘ کے تحقیقاتی مراکز اس بات پر زور دیتے ہیں کہ سیاسی تقسیم، بار بار پیدا ہونے والے سیاسی بحران اور سماجی بےاعتمادی نے مقبوضہ علاقوں کے باشندوں کو مایوسی کی طرف دھکیل دیا ہے، جس نے ماہرین، دانشوروں اور تخلیقی صلاحیت رکھنے والے افراد کیلئے بڑے پیمانے پر فرار کی راہ ہموار کی۔ دوسرے الفاظ میں یہ صورت حال نتین یاہو حکومت کے فیصلوں اور ان کی اس ناکامی کا نتیجہ ہے کہ وہ علاقائی جنگوں اور داخلی تناؤ کے اثرات کو مؤثر حکمتِ عملی کے ذریعے قابو نہیں کر سکے۔ اسی پس منظر میں تل ابیب کے فیصلوں میں شریک اداروں سے منسلک ماہرین نے بھی خبردار کیا ہے کہ یہ انخلا محض آبادی کی منتقلی نہیں، بلکہ ’’انسانی سرمائے کا قتل‘‘ ہے جو اسرائیلی معیشت اور ٹیکنالوجی کے ستونوں کو کمزور کر دے گا۔ غزہ کے محاذ پر ناکامیوں اور ماہر افرادی قوت کو متوجہ کرنے، برقرار رکھنے اور انکی معاونت میں حکومت کی کمزوری نے نوجوان نسل کے ایک بڑے طبقے کو اس نتیجے پر پہنچا دیا ہے کہ ان کا مستقبل مقبوضہ علاقوں میں نہیں بلکہ نسبتاًکم آبادی والے مغربی ممالک مثلاً پرتگال میں زیادہ محفوظ اور روشن ہے۔ کمزور حکومت کی متزلزل معیشت سماجی مشکلات سے ہٹ کر اسرائیلی معیشت میں بڑھتی ہوئی بے یقینی نے بھی مقبوضہ علاقوں کے باشندوں کی ہجرت کو مزید ہوا دی ہے۔ رپورٹوں کے مطابق 2025 کی دوسری سہ ماہی میں اسرائیلی معیشت سالانہ بنیاد پر تقریبا 4 سے 4.5 فیصد تک سکڑ گئی۔ مستقل سرمایہ کاری میں 12 فیصد سے زیادہ کمی آئی، جبکہ نجی کھپت بھی گھٹ گئی۔ یہ 2023 کی آخری سہ ماہی کے بعد پہلا بڑا معاشی سکڑاؤ ہے، جو اقتصادی استحکام کے متعلق ایک اہم انتباہ سمجھا جا رہا ہے۔ تازہ سرکاری اندازوں کے مطابق، 2025 میں حکومت کا بجٹ خسارہ مجموعی قومی پیداوار (GDP) کے تقریباً 9.4 فیصد تک پہنچنے کی پیشگوئی کی گئی ہے، جبکہ سرکاری قرض کا شرحِ تناسب بھی مسلسل بڑھ رہا ہے۔ نیتن یاہو کی متعارف کردہ پالیسیوں نے سرکاری بجٹ پر دباؤ بڑھا دیا ہے، جس کے باعث عوامی خدمات اور بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کی ریاستی صلاحیت کمزور پڑ رہی ہے۔ اگرچہ بظاہر بیروزگاری کی شرح کم اور رسمی اعداد و شمار ایک فعال مارکیٹ دکھاتے ہیں، مگر آبادی کا ایک نمایاں حصہ اب بھی بنیادی ضروریات پوری کرنے کیلئے کافی آمدن حاصل نہیں کر پاتا۔ اسرائیل میں غربت کی شرح میں معمولی کمی کے باوجود اب بھی اقتصادی تعاون و ترقی کی تنظیم (OECD) کے رکن ممالک میں سب سے زیادہ شرحوں میں شمار ہوتی ہے۔ نجی شعبہ اور برآمدات معاشی نمو کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن سیاسی اور سکیورٹی تناؤ خصوصاً خطے کی مزاحمتی تنظیموں کے ساتھ جاری کشیدگی اور جنگ کی وجہ سے ان دونوں شعبوں کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے جس کے نتیجے میں مجموعی معیشت مزید کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ نتیجہ قابض اسرائیلی شہریوں کی وسیع پیمانے پر بیرونِ ملک منتقلی دراصل ایک ایسے ہمہ گیر بحران کی علامت ہے جو ریاستی ڈھانچے، حکومتی پالیسیوں، علاقائی جنگی حکمتِ عملی اور معاشرتی اعتماد کو بیک وقت چیلنج کر رہا ہے۔ یہ فرار صرف جسمانی نقل مکانی نہیں، بلکہ غاصب حکومت سے ذہنی جدائی کا اعلان بھی ہے۔یہ فرار صرف جسمانی نقل مکانی نہیں، بلکہ غاصب حکومت سے ذہنی جدائی کا اعلان بھی ہے۔ ایک طرف اسرائیل کی جانب سے خطے میں بار بار جنگیں مسلط کرنا، غزہ اور اردگرد کے علاقوں میں عسکری کارروائیاں جاری رکھنا، اور اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والی بین الاقوامی تنقید نے اندرونی دباؤ کو شدید کر دیا ہے۔






