عالیجا! یہ الیکشن آپکا ہے!
تحریر: ایم یوسف بھٹی
محترم عرفان صدیقی صاحب، نے اپنے دو روز پہلے کے کالم بعنوان،”نوازشریف سے نہیں، ’چابی برداروں‘ سے رجوع کریں“ میں نے نون لیگ کی کچھ خرابیوں کا بڑی وفاداری کے ساتھ دفاع کیا۔ انہوں نے محاصر صحافی سہیل وڑائچ کے سوالات کے جواب میں ”خلطِ مَبحَث“ کی خوبصورت اصطلاح استعمال کرتے ہوئے 28نومبر1997 کے نون لیگ کے عدلیہ پر حملے کو معمولی واقعہ قرار دیا اور لکھا کہ وہ اس دن عدالتی کمرے میں موجود تھے کہ راہداری میں ہُلّڑ بازی کے باوجود کوئی ججوں کے کمرے میں داخل نہ ہوا۔ احقر بھی اس روز نون لیگی ایم این اے چوہدری محمد خورشید زمان کے ہمراہ وہاں موجود تھا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے جہاں نون لیگ کے ایم این اے مرحوم طارق عزیز کو عدلیہ پر چڑھ دوڑنے کے لئے نعرہ بازی کرتے دیکھا تھا وہاں راقم الحروف نے یہ بھی دیکھا کہ کس طرح پولیس نے سپریم کورٹ کے عقبی دروازوں سے ججوں کو نکال کر نون لیگی مظاہرین سے ان کی جان بچائی تھی۔ عرفان صدیقی صاحب نے اِس کا موازنہ خان صاحب کے کئی معرکوں سے کر کے بذات خود دلیل کے افلاس کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کی اس دلیل اور نون لیگ کے اس بیانیہ میں بال برابر بھی فرق نہیں کہ،”وہ کھاتے ہیں تو لگاتے بھی ہیں“۔
راقم کو پی ٹی آئی یا پیپلزپارٹی سے کسی قسم کی ہمدردی نہیں ہے۔ عمران خان 9مئی تک اپنے نامعقول سیاسی مشیروں کی ٹیم اور اپنی ذات کی”ہٹ دھرمی“ کی وجہ سے پہنچے تھے۔ مجھے ان کے اس عمر میں سلاخوں کے پیچھے ہونے پر بھی کوئی افسوس نہیں ہے۔ میرا سوال صرف قلم کے تقدس کے بارے میں ہے۔ محترم المقام! جناب عرفان صدیقی صاحب کو حال ہی میں نون لیگ نے اپنی جماعت کی منشور کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا ہے۔ عرفان صدیقی صاحب معروف ادیب اور کالم نگار ہیں۔ ملک کے تمام علمی و ادبی حلقوں میں وہ ایک استاد کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کا شمار دانش ور طبقے میں ہوتا ہے۔ جب میاں محمد نواز شریف دبئی سے خصوصی طیارے کے ذریعے اسلام آباد پہنچے تھے تو عرفان صدیقی صاحب اس وقت طیارے میں میاں صاحب کے ساتھ موجود تھے۔ انہوں نے میاں محمد نواز شریف کی مینار پاکستان کے جلسے والی تقریر بھی لکھی ہو گی۔ لیکن ہم اس پر معترض نہیں ہیں کہ نون لیگ نے موصوف کی خدمات کیوں مستعار لی ہیں۔ ہمیں اعتراض محض اس بات پر ہے کہ ایک تجربہ کار اور بصیرت رکھنے والے قلم کار کو اپنی سیاسی وابستگی سے بالا تر ہو کر رائے دینی چاہیے تھی۔
اسی روز میاں محمد نواز شریف جلاوطنی کے بعد پہلی بار باضابطہ طور پر بلوچستان کے سیاسی عمائدین سے ملنے کے لئے کوئٹہ کے دو روزہ دورے پر گئے تھے۔ ابتداء میں کہا جا رہا تھا کہ اس دورے کے دوران 20 اہم سیاسی شخصیات مسلم لیگ نون میں شمولیت کی اعلان کریں گی جن میں اکثریت صوبہ بلوچستان کی سابق حکمران جماعت ”عوامی لیگ“ کے ممبران کی ہو گی جن میں بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان بھی شامل ہیں۔ اس مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے اسلام آباد سے سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی صاحب بھی کوئٹہ پہنچے تھے۔ لیکن شام تک اطلاعات یہ موصول ہوئیں کہ مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف کا مشن بلوچستان رنگ لے آیا اور 30 سے زائد سیاسی شخصیات نے نون لیگ میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔ اسے کہتے ہیں قائد عوام، اب”دے تالی“ تو بنتی ہے۔ اسی روز یہ خبر بھی سننے کو ملی کہ نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کی درخواست سماعت کے لئے مقرر کر دی گئی ہے جس میں نواز شریف کے خلاف 2018 کے بیانات پر توہین عدالت کی کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔ شاید میاں محمد نواز شریف صاحب قسمت کے دھنی ہیں یا یہ ”ادھر زندگی کا جنازہ اٹھے گا ادھر ان کے ماتھے پے بندیا سجے گی“ والا معاملہ ہے۔ بہرکیف یہ ”اُن“ کی مرضی ہے (ججوں کی نہیں) وہ جس رخ چاہے اونٹ بٹھا سکتی ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ اہم 30سیاسی شخصیات نون لیگ میں اسی ذوق و شوق کے”پردے“ میں شامل ہوئی ہیں جس طرح پی ٹی آئی کو ختم کرنے کے لئے پی ٹی آئی کے سیاسی ممبران جہانگیر ترین صاحب کی”استحکام پاکستان پارٹی“ میں جوق در جوق شامل ہوئے تھے۔
بے شک جناب عرفان صدیقی صاحب ایک صاحب بصیرت صحافی ہیں اور کالم نگاری بھی بڑی عرق ریزی سے کرتے ہیں۔ لیکن اسی نون لیگ میں جناب سعد رفیق جیسے شعلہ بیان رہنما اور جناب احسن اقبال جیسے علمی موشگافی رکھنے والے سیاست دان بھی موجود ہیں۔ احسن اقبال کو تو نون لیگ کا ”ارسطو“ بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ نون لیگ کی منشور کمیٹی میں غیر جانبدار اور اپنے شعبوں کے ماہرین افراد کو بھی شامل کیا جاتا تاکہ نون لیگ کا جو نیا بیانیہ تیار کیا جاتا اسے قابل عمل بھی بنایا جا سکتا۔ کچھ سیاسی جماعتوں نے اپنے منشور کا اعلان کر دیا ہے اور وہ اس کے نکات کو اپنے جلسوں میں دہرا رہی ہیں۔ نون لیگ کا گزشتہ بیانیہ”ووٹ کو عزت دو“ تھا۔ امید تھی اس نعرے کی تدفین کے بعد کوئی نیا نعرہ ایجاد کیا جائے گا لیکن عرفان صدیقی صاحب نے اپنی تقرری کے آغاز ہی میں قلم کے ذریعے نون لیگ کی طرفداری کی ہے جس سے ظاہر یہی ہوتا ہے کہ نون لیگ کا منشور نظریات اور پالیسیوں کی بجائے شخصیات کے گرد ہی گھومتا رہے گا جس پر مہر تصدیق کے لئے انہوں نے عرفان صدیقی صاحب جیسا شاہکار ڈھونڈا ہے۔
منشور جیسا فکری کام شاید نون لیگ کے بس کا روگ نہیں ہے۔حقیقی منشور کمیٹی کے ذمہ پالیسی سازی کے حوالے سے بے شمار کام ہوتے ہیں جن میں تعلیم، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، جدید دور کی اہم ضرورت ”آرٹیفیشئل انٹیلی جنس“، داخلہ، قانون، عدلیہ، انتظامیہ، صوبے، خارجہ، صنعت، زراعت اور ماحولیات وغیرہ شامل ہیں۔ان تمام شعبے کے لئے ہمیشہ ملک بھر سے ماہرین چنے جاتے ہیں تاکہ ہر متعلقہ شعبے کو پوری تحقیق اور جانچ پڑتال کے بعد جدید خطوط پر استوار کیا جا سکے۔ لگتا ہے مسلم لیگی قیادت نے خانہ پری کے لئے ایک ٹیم ترتیب دی ہے جو منشور کے نام پر وہی پرانے گھسے پٹے دعوے اور پروگرام قوم کے سامنے رکھے گی جو اس سے پہلے کئی دفعہ پٹ چکے ہیں۔
اس کے باوجود جس دھماکے سے میاں نواز شریف کا بلوچستان کا دورہ کامیاب ہوا ہے، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ یہ الیکشن عالیجا میاں محمد نواز شریف ہی کا ہے۔ ایسا ہے (اور واقعی ایسا ہی ہے) تو الیکشن کروانا ایک تھکا دینے والی فضول سی مشق ہے۔ الیکشن کی مارا ماری، اخراجات اور دھینگا مشتی سے بہتر ہے میاں نواز شریف کو صدر مملکت، شہباز شریف کو وزیر داخلہ، حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ پنجاب، رانا ثناء اللہ کو وزیر داخلہ پنجاب، بلاول بھٹو کو وزیر خارجہ، مولانا فضل الرحمن کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین اور دیگر سرکردہ نون لیگیوں اور پپلیوں کو جنرل ضیاء الحق طرز کی مجلس شوری کے قلم دان سونپ دیئے جائیں۔ دیگر 24کروڑ عوام میں موجود مخلص، ایماندار، تعلیم یافتہ اور اہل افراد اور جمہوریت جائے گھاس چرنے! مقتدرہ کے لئے کیا ممکن نہیں ہے؟ جیسے نظریات کے بغیر شخصیات کے بل بوتے پر پہلے نظام چلتا آیا ہے اب بھی یونہی چلتا رہے گا۔