آئی ایم ایف 70کروڑ ڈالرقرض دینے پر رضا مند!

پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)کے درمیان سٹاف کی سطح پر معاہدہ طے پاگیا ہے،اعلامیہ کے مطابق آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے پاکستان کو70کروڑڈالر ملیں گے،کیونکہ اسلام آباد نے تمام معاشی اہداف حاصل کر لئے ہیں،ملکی پالیسیوں میں تسلسل اورمعاشی استحکام آرہا ہے،پاکستان نے مارکیٹ کی بنیاد پر ایکسچینج ریٹ پر عمل جاری رکھنے کا وعدہ کیاہے اورآئندہ چند ماہ میں مہنگائی میں کمی کا امکان ہے تاہم پاکستان بیرونی خطروں کی زدپر ہے،سیاسی وجغرافیائی کشیدگی اوراجناس کی قیمت میں اضافے سے اُبھرنے کی کوششیں جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ گیس اور بجلی کے شعبوں میں مجموعی گردشی قرضہ جی ڈی پی کے 4 فیصد سے بڑھ گیا ہے اور اس حوالے سے فوری اقدام اہم ہے۔ تاہم آئی ایم ایف نے ٹیکس وصولیوں کا ہدف بڑھانے پر زور دیا ہے جو اِس وقت قریباً بارہ فیصد ہے جبکہ آئی ایم ایف اِس ہدف کو کم ازکم پندرہ فیصد پر چاہتا ہے تاکہ معاشی سرگرمیاں برقرار رہیں اور جو لوگ ٹیکس اداکرسکتے ہیں لیکن اِن سے ٹیکس وصول نہیں کیا جارہا ان کو ٹیکس نیٹ میں لاکر پندرہ فیصد تک کم ازکم ہدف کو لایاجائے۔اِس میں قطعی دو رائے نہیں کہ پاکستان حکام انتہائی مشکل معاشی حالات میں پروگرام پرعمل کررہے ہیں، مگر دوسری طرف دیکھا جائے تو ہم آزادی سے لیکر ابتک طاقت ور طبقہ کی منشاء کو مقدم رکھتے آئے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارا ٹیکس نیٹ جب بھی وسیع ہوا ہے، آئی ایم ایف کے شدید دباؤ کے نتیجے میں ہی وسیع ہوا مگر اس کا نزلہ کسی نہ کسی طریقے سے عام عوام پر ہی گرتا رہا ہے۔ اب مالیاتی خسارے کی تخفیف کے لئے 94کھرب 15 ارب آمدن کا ہدف حاصل کرنا ہوگا اور اس کے لئے بجلی اور گیس دونوں کی قیمتیں آنے والے مہینوں میں مزید بڑھائی جائیں گی جس کا براہ راست بوجھ عام متوسط اور غریب طبقے پر پڑے گا اور بلاشبہ اِس کے نتیجے میں مہنگائی بھی بڑھے گی۔ موجودہ مشکل مرحلے میں پاکستان کی معیشت کو آئی ایم ایف پروگرام سے فائدہ ہوگا۔ لیکن اگر ہم ملک میں پائیدار اقتصادی ترقی اور خوشحالی چاہتے ہیں تو طویل المدتی کوششوں کی ضرورت ہے، اِس کے لیے پالیسی سازوں کو ایسے معاشی اور مالیاتی اداروں کی بنیاد رکھنے کے لئے آئی ایم ایف کی تجاویز کو بروئے کار لانا چاہیے جو اس وقت بھی برقرار ہیں مگر ہم اِن اداروں کی بھرپور صلاحیت سے فائدہ نہیں اٹھارہے، یا پھر طاقت ور طبقے کے مفادات کونقصان پہنچتا ہے۔ پاکستان کی معیشت نے گزشتہ چند سالوں میں کئی چیلنجز کا سامنا کیا ہے۔ ملک چند ماہ پہلے تک ڈیفالٹ کے دہانے پر تھا اور سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو ڈیفالٹ کا ذمہ دار قرار دیتی رہی ہیں اور ابتک یہ سلسلہ جاری ہے۔ مگر سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہم آج تک اپنی معاشی سمت طے نہیں کرسکے، گھڑی کی سوئیوں کی طرح پاکستان کی معاشی پالیسی بدلتی رہی، ہر حکومت نے بڑے سرمایہ داروں، اپنے اور اتحادیوں کے مفادات کا تحفظ مقدم رکھا، اور دھیرے دھیرے عوام پر معاشی بوجھ ڈالتے رہے، کہیں یہ سوچنے کی زحمت ہی نہیں کی گئی کہ ہمارا رحجان برآمدات کی جانب کیوں ہے؟ حالانکہ ہمارے ملک کی حالت ایسے متوسط بلکہ غریب گھر کے حالات جیسی ہے جہاں یومیہ آمدن سے نظام چلتا ہے، ہر چھ مہینے یا سال کے بعد ہم ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ہوجاتے ہیں مگر ہم خود انحصاری کی طرف بڑھتے ہیں اور نہ ہی ہمیں شرم محسوس ہوتی ہے کہ ہم دوست اور پڑوسی ممالک کے آگے ہمیشہ دست بستہ رہتے ہیں تاکہ وہ ڈیفالٹ کے خطرے سے بچائیں۔ چین کی ہی مثال لے لیجئے ہمارے بعد آزاد ہوئے، دنیا کی سب سے زیادہ آبادی تھی اور بلاشبہ وسائل سے زیادہ مسائل تھے لیکن اِس قوم نے پیٹ کاٹا اور آج دنیا کی بڑی معاشی طاقت بن کر عالمی فیصلوں میں شامل ہوتی ہے مگر ہمارے مسائل ہی اور ہیں۔ آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود ہم زہر کھارہے ہیں، گلے میں رسی ڈال کر بھی سمجھتے ہیں کہ پھانسی کا پھندا نہیں ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ سعودی عرب جتنے ڈالرز کا پٹرول بیچتا ہے، بھارت اتنے ڈالرز صرف اپنی سافٹ ویئر انڈسٹری سے کماتا ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ ہم کہاں پر کھڑے ہیں، ہمارے پاس برآمدات کے لئے ہے ہی کیا؟ گندم، دالیں، پام آئل، پٹرول، گیس غرضیکہ کوئی ایسی چیز نہیں جوہم درآمد نہیں کرتے، بجلی اور گیس مہنگی ترین کرکے ہم نے انڈسٹریز کے شعبے کو ویسے ہی تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے، سیاسی عدم استحکام ختم ہونے کا نام نہیں لیتا، ملکی حالات اِس نہج پر ہیں کہ غیر ملکی سرمایہ یہاں کیا آئیں گے، بلکہ یہاں سے صنعتیں پڑوسی ممالک میں منتقل ہورہی ہیں۔ ہم اپنی قیادت کی کوتاہیاں بیان کرنے لگیں تو شاید کئی صفحات کالے ہوجائیں مگر افسوس ہوتا ہے کہ پوری دنیا میں گرین پاسپورٹ بے توقیر ہوچکا ہے، پہلے دہشت گردی کا کلنک ہمارے ماتھے پر سجایاگیا، اب ہماری پہچان مانگنے والی قوم بن چکی ہے، ہم کس طرف جارہے ہیں کیوں ہم غلطیوں کو دھرانے سے باز نہیں آتے؟ کب تک ہماری یہی پہچان رہے گی، کیونکہ ہم برآمدات کے فروغ کی طرف نہیں جارہے؟