غزہ میں عالمی استحکام فورس کیلئے پاکستانی فوجی دستے بھیجے جانے کا امکان

پاکستان جلد ہی اس بات کا اعلان کرنے والا ہے کہ آیا وہ غزہ کے لیے تشکیل دی جانے والی بین الاقوامی استحکام فورس (آئی ایس ایف) میں فوجی دستے بھیجے گا یا نہیں۔
سرکاری ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق حکومت اس فورس میں شمولیت کی طرف مائل نظر آتی ہے۔
معاملے کی حساسیت کے باعث نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرنے والے ذرائع نے بتایا کہ حکومت اور عسکری اداروں کے درمیان مشاورت ’حتمی مراحل‘ میں داخل ہو چکی ہے، ان کے مطابق اندرونی مشاورت کا لہجہ ظاہر کرتا ہے کہ اسلام آباد اس مشن میں حصہ لینے کے حق میں ہے۔
امریکی ثالثی میں طے پانے والے ’غزہ امن معاہدے‘ کا ایک بنیادی ستون آئی ایس ایف کا قیام ہے، جو زیادہ تر مسلم اکثریتی ممالک کے فوجی اہلکاروں پر مشتمل ہوگی۔
اس فورس کے مینڈیٹ میں داخلی سیکیورٹی برقرار رکھنا، حماس کو غیر مسلح کرنا، سرحدی گزرگاہوں کی حفاظت، اور عبوری فلسطینی اتھارٹی کی نگرانی میں انسانی امداد و تعمیر نو میں مدد فراہم کرنا شامل ہوگا۔
اگرچہ ٹرمپ انتظامیہ نے امریکی فوجی اہلکاروں کو غزہ بھیجنے سے انکار کر دیا ہے، تاہم وہ انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات، مصر، قطر، ترکیہ اور آذربائیجان سے اس کثیر القومی فورس میں شرکت کی بات چیت کر رہی ہے۔
البتہ پیر کے روز اسرائیلی وزیر خارجہ گیدون سار نے ترکیہ کی آئی ایس ایف میں شمولیت کی کھلے عام مخالفت کی، اور ترک صدر رجب طیب اردوان کے ’اسرائیل مخالف رویے‘ کو جواز بنایا۔
اتوار کو اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا تھا کہ غزہ میں کن غیر ملکی افواج کو داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی، اس کا فیصلہ اسرائیل خود کرے گا اور اشارہ دیا کہ وہ ترک افواج کے کسی بھی کردار کے سخت مخالف ہوں گے۔
اسرائیلی پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی پارلیمنٹ کی خارجہ امور و دفاعی کمیٹی کے ارکان کو گزشتہ ہفتے ایک بند کمرہ بریفنگ میں بتایا گیا کہ آئی ایس ایف انڈونیشیا، آذربائیجان اور پاکستان کے فوجیوں پر مشتمل ہوگی۔
’یہ فورس غزہ میں داخلی سیکیورٹی اور امن و امان برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی سرحدی حفاظت اور ہتھیاروں کی اسمگلنگ روکنے میں مدد کرے گی‘۔
یہ رپورٹس ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں، جب آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر مصر اور اردن کے دورے پر ہیں، جو غزہ میں جنگ بندی کے بعد کے معاملات میں گہرا کردار ادا کر رہے ہیں۔
اگرچہ فوج نے ان کے دوروں کو دفاعی تعلقات کے فروغ سے تعبیر کیا ہے، لیکن ذرائع کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی غزہ امن منصوبے کے نازک نفاذ پر بھی ان کے خطے کے رہنماؤں سے تبادلہ خیال ہوا۔
مصری صدر عبدالفتاح السیسی سے ملاقات میں فیلڈ مارشل عاصم منیر نے مشرقِ وسطیٰ میں استحکام اور کشیدگی کم کرنے میں مصر کے ’مرکزی کردار‘ کو سراہا، مصری ایوان صدر کے بیان کے مطابق، انہوں نے غزہ میں انسانی بحران ختم کرنے کے لیے مصر کی ’انتھک کوششوں‘ کی بھی تعریف کی۔
قطر اور امریکا کے ساتھ بنیادی ثالث کا کردار ادا کرنے والے مصر نے 13 اکتوبر کو شرم الشیخ میں وہ کلیدی اجلاس منعقد کیا تھا، جہاں منصوبے کے پہلے مرحلے پر دستخط ہوئے تھے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق، مصری صدر نے پاکستان کے ’دنیا اور امتِ مسلمہ کے اہم معاملات میں مثبت اور متحرک کردار‘ کو سراہا تھا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ قاہرہ میں آرمی چیف کی بات چیت اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ پاکستان استحکام فورس اور امن منصوبے کے نفاذ کی نگرانی کے لیے قائم کیے جانے والے امریکی قیادت کے سول-ملٹری کوآرڈی نیشن سینٹر میں کردار ادا کر سکتا ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق اردن میں، فیلڈ مارشل منیر کی بادشاہ عبداللہ دوم اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف میجر جنرل یوسف احمد الحنیتی سے ملاقاتوں کے دوران، اردنی قیادت نے خطے کے امن و استحکام کے لیے پاکستان کی ’خدمات‘ کو سراہا۔
اسلام آباد میں سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ممکنہ شمولیت اخلاقی ذمہ داری اور سفارتی ضرورت دونوں کا تقاضا ہے، پاکستان ان 8 ممالک کے ابتدائی امن منصوبے کا حصہ تھا جو 2024 کے آخر میں تشکیل دیا گیا اور جسے متعدد مسلم ممالک کی حمایت حاصل تھی۔







