پاکستان

’تاریخ اس غداری کو یاد رکھے گی‘، شہباز شریف کی جانب سے ٹرمپ کے غزہ منصوبے کی حمایت پر شدید غم و غصہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ 20 نکاتی غزہ امن منصوبے کا پُرجوش خیرمقدم کرنے پر وزیراعظم شہباز شریف کو شدید تنقید کا سامنا ہے، کئی ناقدین اس مجوزہ منصوبے کو اسرائیل کی نسل کشی کی پردہ پوشی کرنے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔

شہباز شریف نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں کہا کہ وہ اس بات پر قائل ہیں کہ فلسطینی عوام اور اسرائیل کے درمیان پائیدار امن خطے میں سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے۔

انہوں نے ٹرمپ کی ’قیادت‘ اور ایلچی اسٹیو وٹکوف کی ’کوششوں‘ کو سراہا جنہوں نے تقریباً 2 سال طویل غزہ کی جنگ ختم کرنے کی کوشش کی ہے، شہباز شریف نے مزید کہا کہ دو ریاستی حل ’خطے میں پائیدار امن کے لیے ناگزیر ہے‘۔

تاہم پاکستانی عوام اس مؤقف کو ماننے پر تیار نہیں۔

چند گھنٹوں میں ہی ایکس پر عوامی غصے کا طوفان امڈ آیا، مشتعل صارفین نے شہباز شریف پر الزام لگایا کہ وہ ’واشنگٹن کو خوش کرنے‘ اور ’پاکستان کے فلسطین پر دیرینہ مؤقف کو دفن کرنے‘ کے ساتھ ساتھ ’صرف ایک ٹوئٹ میں اسرائیل کو جائز حیثیت دینے‘ کی کوشش کر رہے ہیں۔

ایک صارف نے سوال اٹھایا کہ ’ہم پاکستانی یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ فلسطینی عوام کیا چاہتے ہیں، جب 70 ہزار شہری مارے جا چکے ہیں تو غزہ کو غیر مسلح کیسے کیا جا سکتا ہے جبکہ اسرائیل ایک سیکیورٹی حصار برقرار رکھے گا؟‘۔

ایک اور نے یاد دلایا کہ ’ہماری فلسطینی عوام کے لیے ایک ذمہ داری عائد ہوتی ہے، صرف اس لیے نہیں کہ ہمارا مذہب ایک ہے بلکہ اس لیے کہ ہم نوآبادیاتی جبر کے مخالف ہیں‘۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان ٹرمپ کے منصوبے کی حمایت کرتا ہے تو اس کا مطلب ہوگا کہ وہ ’نسل کشی اور آبادکار ریاست‘ کے ساتھ کھڑا ہے۔

ایک اور صارف نے زور دے کر کہا کہ ’نہ قابض طاقتوں اور نہ ہی غیر ملکی قوتوں کو فلسطین کا مستقبل طے کرنے کا حق ہے، فلسطین کو آزادی، انصاف اور نسل پرستی کے خاتمے کی ضرورت ہے، کھوکھلے منصوبوں کی نہیں‘۔

کئی لوگوں نے دلیل دی کہ یہ 20 نکاتی منصوبہ فلسطینیوں کے لیے نہیں بلہ اسرائیل اور ٹرمپ کے لیے سودمند ہے، کیونکہ اس کی نگرانی ایک بین الاقوامی ’بورڈ آف پیس‘ کرے گا جس کی سربراہی ٹرمپ کریں گے، جب تک کہ فلسطینی اتھارٹی کو ’اصلاح‘ کے بعد غزہ کا کنٹرول دینے کے قابل نہ سمجھا جائے، منصوبے کے مطابق حماس کو ’حکومت میں کسی بھی قسم کا کردار نہیں ملے گا اور غزہ کو مکمل طور پر غیر عسکری بنایا جائے گا‘۔

اداکارہ سکینہ سمو نے ڈان کی ایک پوسٹ پر کمنٹس میں لکھا کہ ’ٹرمپ کی قیادت میں؟ ہرگز نہیں! یہ منصوبہ سراسر ناانصافی ہے‘، دوسرے صارفین نے اسے ’قبضے کا نیا نام‘ قرار دیا۔

ایک صارف نے اسے ’امریکی طاقت کے کھلے اظہار‘ سے تعبیر کیا، جبکہ دوسرے نے اسے ’ایک جال‘ قرار دیا۔

کسی نے اسے ’امریکی طاقت کی کھلی عکاسی‘ کہا تو کسی نے ’ایک جال‘، بہت سے لوگوں نے نویں نکتے کو پورے منصوبے کا خلاصہ قرار دیا، جس کے مطابق غزہ کو ’بورڈ آف پیس‘ چلائے گا۔

بہت سوں کے لیے ٹرمپ کے منصوبے کی حمایت سفارتکاری نہیں بلکہ پسپائی دکھائی دیتی ہے، ایک مشتعل صارف نے لکھا کہ ’انصاف کے بغیر امن ایک کھوکھلا لفظ ہے، بغیر شرائط کے حمایت دراصل غداری ہے‘۔

پاکستان کا دیرینہ مؤقف ہمیشہ یہی رہا ہے، فلسطینی عوام کو ان کے حقوق ملنے تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جائے گا، لیکن شہباز شریف کی پوسٹ بہت سوں کو اس سرخ لکیر پر ایک سافٹ یوٹرن محسوس ہوئی اور پاکستانی عوام اسے معاف کرنے کو تیار نہیں۔

جیسا کہ ایک سے زیادہ وائرل ٹوئٹس نے خبردار کیا کہ ’تاریخ اس غداری کو یاد رکھے گی‘۔

جواب دیں

Back to top button