آج کے کالمغلام مصطفی

”ماں“ فقط اک یاد ہے سرمایہ میرا۔۔۔!

(تحریر:غلام مصطفی)
پوری کائنات میں ”ماں“ سے خوبصورت اور مخلص رشتہ کوئی نہیں۔ والدہ کی تیسری برسی پرمختصر تحریر۔۔۔!
16نومبر 2020 کی ایک بھیانک شام جسے میں زندگی بھر بھلا نہیں پاؤں گا، یہ ایک ایسی شام تھی جس نے ہم سے دنیا وآخرت کی بہت بڑی نعمت چھین لی، وہ ہستی جس کے بغیر ایک دن بھی گزارنا مشکل ہوتاتھا، دیکھتے ہی دیکھتے تین سال کاعرصہ بیت گیالیکن‘ ”ماں“ آپ کی کمی ہرلمحہ اور ہمیشہ محسوس کی جاتی رہے گی۔اللہ تعالیٰ میری ماں سمیت تمام مسلم ماؤں کی مغفرت فرمائے جو اس فانی دنیا سے رخصت ہوکر اپنے اللہ کے حضور پیش ہوچکی ہیں۔آمین۔
کاش کہ اللہ تعالیٰ نے میری تقدیر کا فیصلہ میری ماں کے ہاتھ میں دے دیاہوتا تو شاید ہم کبھی جدا ہی نہ ہوتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی رضا، ایک مسلمان کے لیے اللہ کی رضا پر راضی رہنا ضروری ہے اور اسی میں بھلائی بھی ہے۔یوں تو دنیا میں کئی رشتے بنتے ہیں، بکھر جاتے ہیں، ٹوٹ جاتے ہیں، اسی دنیا میں چند رشتے ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں نہ تو توڑاجاسکتاہے اور نہ ہی چھوڑاجاسکتاہے، ان رشتوں کو ہرحال میں نبھایاجاتاہے اور یہ رشتے ہوتے ہی نبھانے کے لیے ہیں۔کئی رشتے ایسے ہوتے ہیں جنہیں انسان پوری زندگی نہیں نبھاپاتالیکن انہی رشتوں میں ایک رشتہ ایسا بھی ہے جسے ”ماں۔باپ“ کہتے ہیں اسے نبھانا لازم ہوتاہے، فرض ہوتاہے قرض ہوتاہے، اپنی جان سے بڑھ کر اس رشتے کو نبھایاجاتاہے لوگ نبھاتے بھی ہیں اور تاقیامت خوش قسمت لوگ انشاء اللہ نبھاتے بھی رہیں گے۔ کوئی شخص بھی دنیا میں ماں کے بغیر جنم نہیں لے سکتا، سارے رشتے انسان کو مل جاتے ہیں مگرماں جیسا رشتہ کبھی نہیں ملتا، لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں انسان زندگی میں اس رشتے کی وہ قدرنہیں کرپاتا اور نہ ہی اس رشتے کی اصل کو روح سمجھ پاتاہے اور بالآخر وہ وقت آجاتاہے جس کا تذکرہ کرنا بھی یہاں محال ہے، بہت مشکل ہے بلکہ ان الفاظ کو لکھنے اور بیان کرنے سے میری زبان اور قلم قاصر ہے، اس کے لیے معذرت خواہ ہوں، ایک میرے ہی نہیں سارے انسانوں کے نزدیک ماں کامقام ومرتبہ اتنا بلند وبالا ہے کہ جس کا بیان ممکن ہی نہیں جیسا کہ ہم جوچاہیں کرلیں اپنی ماں کی کسی ایک نیکی کا بھی قرض نہیں اتارسکتے تواسی طرح ہم جتنا چاہیں اپنی ماں سے محبت کرلیں جتنی چاہیں ان کی خدمت کرلیں پھربھی ماں کی ایک نیکی اور احسان کاقرض اتارنے سے قاصر ہیں۔
ماں ایسے درخت کی مانند ہوتی ہے جس کا سایہ نہ صرف پورے گھر پر ہوتاہے بلکہ اڑوس پڑوس تک جاتاہے، اگر وہ درخت بوڑھا ہوجائے اور بوجھ نہ اٹھاسکے تب بھی اسے پورا کاٹا نہیں جاتا بلکہ اس کی چند شاخیں کاٹی جاتی ہیں جواس درخت پر بوجھ ہوتی ہیں، اسی طرح جب درخت پھل نہیں دے سکتا تب بھی وہ سایہ ضرور دیتاہے، اور جب وہ بہت زیادہ سایہ نہیں دے سکتا تب بھی وہ اپنے وجود کاحساس ضرور دلاتاہے جب تک وہ درخت اپنے پیروں پرکھڑا ہوتاہے کسی سے کچھ نہیں مانگتا بس یہی چاہتاہے کل تک اس کے سایہ میں رہنے والے لوگ اس کے پاس رہیں، وہ زیادہ سے زیادہ پانی مانگتاہے وہ بھی آپ کی مرضی کے مطابق۔وہ گھر کے کسی بھی حصے میں لگا ہوپورے گھر کی رونق بنا رہتاہے اور خدانخواستہ اگر کوئی اپنے گھر سے اس درخت کو جڑ سمیت اکھاڑ کر پھینک دے یا کاٹ ڈالے تو پھر اس کی کمی صدیوں تک محسوس ہوتی ہے، جب صبح ہوتی ہے تو اس کا احساس ہوتاہے شام ہوتی تب بھی اس کاحساس ہوتاہے اور جب رات ہوجاتی ہے تب بھی وہ اپنی کمی کااحساس دلاتارہتاہے جبکہ ماں کی حیثیت اس سایہ دار درخت سے کروڑوں درجے زیادہ ہے۔
ماں جیسے رشتہ کی مٹھاس کو کبھی اپنی زندگی میں محسوس کیجئے آپ کو دنیا کے تمام رشتے پھیکے نظر آئیں گے، اصل رشتہ ماں کاہوتاہے جس میں مٹھاس ہی مٹھاس ہوتی ہے، جس میں نہ لالچ ہوتی ہے اور نہ خودغرضی،وہ غصہ بھی کرتی ہے تواس میں احساس ہوتاہے، اس میں بھی ایک بہتری کاپہلو پنہا ں ہوتاہے، اپنے اردگرد کے ماحول کو چھوڑیئے، اپنے اصل اور پاکیزہ ماحول میں رہتے ہوئے اس بات پر غور وفکر کریں کیونکہ ابھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو وقت دیا ہوا خدانخواستہ جب یہ وقت ہاتھ سے نکل گیا تو پھر کچھ حاصل نہیں ہوگا۔اس طرف دھیان دیجئے۔
اللہ تعالیٰ نے ماں، باپ کے اس رشتے کو اتنا مقدس بنایاہے کہ اس کے بغیر نسل انسانی کا آگے بڑھنا ناممکن نہیں رکھا۔ ماں کے بغیر کوئی بھی انسان مکمل نہیں ہوسکتا، جس طرح سے ماں کے بغیر انسان مکمل نہیں ہوسکتااسی طرح ماں کے بغیر ایک گھر، ایک محلہ،ایک معاشرہ مکمل نہیں ہوسکتا، ہائے افسوس کہ انسان کو کائنات کے اس خوبصورت ترین عظیم رشتے کی قدروقیمت اس وقت ہوتی ہے جب وہ اس فانی دنیا میں نہیں رہتے خدانخواستہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی بھی انسان اپنی ماں کی خدمت گزاری میں کوئی کسر باقی رکھتاہے۔ نہیں نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے چونکہ انسان گناہ گار ہے خطاکار ہے،بے شک انسان گھاٹے میں ہے، کسی اولاد کے لیے سب سے زیادہ مقدم اس کی ماں ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہئے۔ اس رشتے کی خاطر انسان کو سب کچھ چھوڑ دیناچاہیے‘ اگرماں دوران نماز آواز دیں تو آپ اپنی نماز توڑ کر بھی اپنی ماں کی خدمت کے لیے حاضرہوسکتے ہیں،اس کی ضرورت کوپورا کرسکتے ہیں، اس کے بعداپنی نماز مکمل کرسکتے ہیں، اس قدر مرتبہ ہے ماں کا۔فی زمانہ اگر ہم جائزہ لیں تو ہر طرف افرا تفری کاعالم ہے، ہر طرف نفسا نفسی ہے، ہرکوئی اپنی دنیا بسائے بیٹھاہے، کسی کوکسی کی پرواہ نہیں،ہاں اگر کسی کو پرواہ ہے تو وہ ماں ہے، اس پرفتن دورمیں جب کسی بیٹے کو ماں کی کوئی فکر نہیں ہے لیکن اس کے باوجود اگر ماں بیمار بھی ہوجائے تو بھی وہ اپنی اولاد کی فکر میں رہتی ہے وہ اس وقت تک نہیں سوتی جب تک اس کی اولاد اس کے سامنے نہ آجائے۔ وہ ہروقت اپنے بچوں کے بارے میں پریشان رہتی ہے، اس کا اٹھنا، بیٹھنا، چلنا پھرنا سب کچھ اپنی اولادکے لیے ہوتاہے، اگر کسی کی ماں خدانخواستہ بیمار ہوجائے تواسے چاہیے کہ وہ اس کی دن رات خدمت کرے، اپنی باقی مصروفیات کو جتنا زیادہ کم کرسکتاہے کرلے اور اپنی ماں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارے۔
اگر ہم کوئی عبادت بھی کرتے ہیں تو اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی کہ وہ عبادت اللہ تعالی ٰکے ہاں قبول ہوئی ہے یا نہیں، خلوص نیت کے ساتھ ماں باپ کے ساتھ گزارا ہوا ایک ایک لمحہ بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہے، یہ گارنٹی شدہ ہے۔اسی طرح اگر کوئی شخص اپنے ماں باپ کو بڑھاپے میں پائے توان کے ساتھ حسن سلوک کرے اور حسن سلوک کے بارے میں فرمایا گیاکہ ”جب تمہارے ماں باپ یا ان میں سے کوئی ایک بھی بڑھاپے کو پہنچیں تو ان کی خوب خدمت کرو اور ان کی ہر بات مانو اور انہیں اُف تک نہ کہو، کیونکہ تمہارے ماں باپ کا تم پر بڑا حق ہے وہ حق اتنا بڑا ہے کہ اگر تم ساری زندگی بھی ان کی خدمت میں گزار دو تب بھی تم ان کی ایک نیکی ایک احسان کاحق ادا نہیں کرسکتے، ماں باپ کی خدمت سے متعلق جتنے ارشادات موجود ہیں ان سب میں یہی بتایا گیا ہے کہ اولاد اپنے ماں باپ کی کسی ایک بھی احسان کاقرض ادا نہیں کرسکتی۔ اس بات سے پتہ چلتاہے کہ اولاد پر ماں کا باپ کا کتنا حق ہوتاہے اور اولاد کا کام صرف اور صرف ماں باپ کی خدمت ہوناچاہیے۔ اللہ تعالیٰ بڑا غفورورحیم ہے وہ انسان کواولاد دیکر بھی آزماتا ہے، دولت دیکربھی، مال ودولت لیکر بھی آزماتاہے، ماں باپ کاسایہ دیر تک قائم کرکے بھی اور انہیں جلد اٹھاکربھی۔ الغرض انسان کا ہر لمحہ آزمائش میں گزر رہا ہے، کہتے ہیں۔آپ ماں باپ کی دعائیں لیتے رہا کریں پھر چاہے آپ جتنے بھی کمزور ہو ں اللہ پاک آپ کی غیب سے مدد فرمائے گا او ر دوسری بات یہ کہ ماں باپ کی دعائیں ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی ختم نہیں ہوتیں اللہ پاک نے ماں باپ کی دعا کوہمیشہ ہمیشہ کے لیے قبول کرلیاہے، ہاں اب جن خوش نصیب لوگوں کے ماں باپ زندہ ہیں یا ان میں سے کوئی ایک بھی حیات ہے تو وہ ان کی خدمت کرلیں اور ہاں ماں باپ تو اولاد سے صرف وقت مانگتے کہ ان کی اولاد ان کے سامنے بیٹھی رہے ان سے باتیں کرتی رہے، ماں باپ اپنے دکھ درد ان سے شیئر کرتے رہے، اولاد کو سامنے دیکھنے سے ماں باپ کو بڑی تسلی ہوتی ہے، بڑا سکون میسر آتاہے، اب اگر کسی کے والدین بڑھاپے کی وجہ سے ضد کرتے ہیں کسی بات کو بار بار دھراتے ہیں تو اس میں برا ماننے والی کوئی بات نہیں بلکہ ان کی ان باتوں کو خوش دلی سے لیتے ہوئے اچھے باآدب طریقے سے بار بار جواب دیا کریں کہ اکثر لوگوں کا دماغ بڑھاپے میں بچوں کی طرح ہوجاتاہے۔
لوگو! اپنے والدین کی قدر کرو ورنہ ان کے دنیا فانی سے رخصت ہوجانے کے بعد بہت پچھتاؤگے اور یاد کرو وہ وقت جب وہ بچپن میں ہمیں پالنے کے دوران جب ہم ان سے ایک ایک چیز کے بارے میں دس دس بار پوچھتے تھے تو وہ کتنی خوش دلی اور محبت وشفقت سے جواب دیاکرتے تھے اور اس چیز کے بارے میں بتاتے تھے۔ ان کے احسانات کو یاد کرو جب ہم اس قابل نہیں تھے کہ خود کھڑے ہوسکے یا چل سکیں تو وہ ہمیں سہارا دیکر چلاتے تھے۔ہماری پرورش میں اپنی طرف سے کوئی کمی نہیں رکھتے تھے۔ ہماری ہر خواہش کو پوراکرنے کے لیے اپنی ساری خواہشیں ماردیتے تھے۔ خود روکھی سوکھی کھاکر بھی ہمارا پیٹ بھرتے تھے، ہمیں اچھی سے اچھی تعلیم ورہائش وآرائش دینے کے لیے وہ اپنے اوپر توجہ دینا ہی بھول جاتے تھے، میری دعا ہے کہ ماں باپ کی شفقت کاسایہ ہر مسلمان پر ہمیشہ قائم ودائم رہے، ماں باپ سے بڑی نعمت کوئی نہیں ہے، جب ماں دعا کرتی ہے تووہ عرش تک جاتی ہے، اگر ہم دعا کریں گے تو وہ آسمان کے درمیان رکی رہتی ہے اور اس کی قبولیت میں وقت لگتاہے لیکن ماں باپ کی دعائیں ڈائریکٹ قبول ہوتی ہیں، اللہ تعالیٰ نے ماں باپ جیسا خوبصورت ترین رشتہ کوئی اور پیدا نہیں کیا۔ بہن، بھائی، بیوی، اولاد سب رشتے اپنی جگہ عزیز ہوتے ہیں لیکن یہ سارے رشتے ایک حد تک ساتھ دیتے ہیں، ماں باپ جیسے رشتے کی کوئی حد ہی نہیں ہوتی، کوئی شرط نہیں ہوتی ہے۔ وہ توبس اپنی اولاد کی پرورش بغیر غرض کے کرتے ہیں، دنیا میں سب سے مخلص ترین رشتہ ماں کاہے۔ اس کی قدر کریں جبھی زمانہ اور آپ کی اولاد۔آپ کی قدر کرے گی جو اولاد اپنے ماں باپ کی قدر نہیں کرتی عزت نہیں کرتی ان کی اولادیں بھی ان کی عزت نہیں کرتیں۔ ان کی قدر نہیں کرتی، جو ماں باپ کا وفادار ہوتاہے وہی سچا وفادار ہوتاہے۔ جو بدنصیب لوگ اپنے ماں باپ کو تکلیف پہنچاتے ہیں وہ نہ صرف آخرت بلکہ دنیا میں ذلیل ورسوا ہوتے ہیں۔اپنے آپ کو برے انجام سے بچانے اور اپنے فرض کو ادا کرنے کے لیے ماں باپ کے لیے وقت نکالیں ورنہ اگرخدانخواستہ یہ موقع ہاتھ سے نکل گیا تو وہ وقت کبھی نہیں آئے گا جس کا آپ کو ساری زندگی انتظار رہے گا اور سوائے افسوس اور اپنے رویے پر ماتم کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ذراسوچیئے!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button