آج کے کالمراؤ غلام مصطفی

غزہ سے آخری چیخ کا انتظار؟

راؤ غلام مصطفی

21مئی 2021 ء کو جمعہ کی شب رات گئے جب غاصب اسرائیل کی جانب سے فلسطین پرجنگ مسلط کی گئی تو گیارہ روز کے بعد مصر اور امریکہ کی ثالثی کے نتیجے میں جنگ بند ہو گئی تھی، مصر اور امریکہ کی ثالثی کے نتیجہ میں اسرائیل نے جنگ بندی کی پیش کش کی توحماس نے اس پیش کش کو دو شرطوں کے ساتھ قبول کر لیا، دو شرطوں میں مسجد اقصیٰ میں فوجی دخل اندازی سے گریزاور شیخ جراح کے علاقے سے تین مسلم خاندانوں کو زبردستی بے دخل کرنے سے گریز شامل تھیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا خصوصی اجلاس نیو یارک میں منعقد ہوا تھا اوراس اجلاس میں عرب اور مسلم ممالک شامل تھے اور جن میں ترکی،پاکستان، ملائشیا،انڈونیشیااور برونائی پیش پیش تھے۔ اس کے علاوہ چین اور روس جیسی طاقتیں بھی مسلم ممالک کے ساتھ کھڑی نظر آئیں۔ اجلاس میں ترکی،پاکستان، ملائیشیا،ایران اور فلسطین کے نمائندوں نے اسرائیلی دہشت گردی کو بے نقاب کرتے ہوئے کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیاتھا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اپنے خطاب میں غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے اسرائیلی حکومت پر زور دیا تھاکہ مشرقی بیت المقدس میں یہودی آباد کاری کی کارروائیاں اور مسلمانوں کے مکانوں کی مسماری اور باشندوں کی جبری بے دخلی سے باز آئے۔عالمی برادری کے دباؤاور فلسطینی مسلمانوں کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بننے پر اسرائیل کو گھٹنے ٹیکنے پڑ گئے۔ گیارہ دن کے بعد جنگ بندی ہو گئی 232 فلسطینی مسلمان اسرائیل کی جانب سے مسلط کی گئی جنگ میں شہید ہو گئے جن میں 65 بچے بھی شامل تھے۔ اس جنگ میں اسرائیلی فوج کی صرف بارہ ہلاکتیں ہوئیں اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس قدر غیر متوازن ٹکراؤہوا اور فلسطینیوں کا جو نقصان ہوا اس کا اندازہ لگانا دشوار ہے۔فلسطین میں دیرپا مستقل امن کے لیے عالمی قوتوں اور مسلم ممالک کو ٹھوس لائحہ عمل اپنانے کی ضرورت ہے یہ فکر مند سوالات جواب طلب ضرور ہیں کہ توسیع پسند ’جارح‘ بد مست اسرائیل کو لگام کیسے دینی ہے تاکہ دوبارہ فلسطینی مسلمانوں پر اسے ظلم کرنے سے باز رکھا جا سکے۔
اسرائیل کے فلسطین پر کیے گئے مظالم کی تاریخ بڑی طویل ہے یہ بھی ایک تلخ سچائی ہے کہ عالمی امن کی پاسبان و نگہبان کہلانے والی جملہ بڑی طاقتیں اسرائیلی جارحیت کو لگام کسنے کی قوت سے کیوں محروم ہیں اور یہ صورتحال فلسطین میں قیام امن کے لیے بڑی تشویشناک ہے اور یہی وجہ ہے کہ درندہ صفت منہ زور اسرائیل کسی نہ کسی بہانے مظلوم و مقہور فلسطینیوں پر وقفے وقفے سے مظالم ڈھاتا رہتا ہے۔مسلم ممالک کے حکمرانوں میں کیا اتنی اخلاقی جرأت ہے کہ بے شرم عالمی قوتوں سے پوچھ سکے کہ غزہ میں دس ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا اس سے بڑھ کر حیوانیت کیا ہو گی۔7اکتوبر 2023ء سے اب تک غزہ میں جارح اسرائیل نسل کشی پر عمل کرتے ہوئے بڑی تعداد میں معصوم بچوں کو شہید کر چکا ہے۔غزہ میں جو تباہی اور شہداء کی تعداد اب تک سامنے آئی ہے وہ اعداد و شمار بڑے ہولناک ہیں۔غزہ میں ایک ماہ سے زائد اسرائیل کی جانب سے مسلط کی گئی جنگ میں دس ہزار سے زائد مسلمان شہید ہو چکے ہیں جس میں بڑی تعداد بچوں کی ہے غزہ میں ہر روز 136معصوم بچے اسرائیل کی جارحیت کا نشانہ بن کر شہید ہو رہے ہیں۔عرب میڈیا کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق شام کی گیارہ سالہ جنگ میں ایک روز میں تین بچے،افغانستان کی بارہ سالہ جنگ میں روزانہ دو بچے،یمن کی ساڑھے سات سالہ جنگ میں دو روز میں تین بچے،عراق کی چودہ سالہ جنگ میں دو روز میں ایک بچہ،یوکرین کی اکیس ماہ کی جنگ میں دو روز میں ایک بچہ جاں بحق ہوا۔دوسری جانب ڈیفنس فار چلڈرن انٹرنیشنل فلسطین نامی این جی او نے بتایا کہ 1967ء سے7 اکتوبر 2023ء سے قبل مغربی کنارے اور غزہ میں جتنے بچے شہید ہوئے اس سے دو گنا سے زائد بچے ایک ماہ میں شہید ہو چکے ہیں۔ امریکہ سمیت ان تمام اسرائیل نواز طاقتوں سے دریافت کرنا ایسے میں لازمی ہے کہ حق دفاع کے نام پر خواتین، بچوں، بزرگوں اور عام فلسطینیوں کے قتل عام کا لائسنس اسرائیل کو کس نے دیا؟ امریکہ سمیت اسرائیل کی پشت پر کھڑی عالمی طاقتیں حماس کو دہشت گرد قرار دے کر بھی فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام کو جائز قرار نہیں دے سکتیں مسلم امہ کے حکمرانوں کی بے حسی دیکھئے کہ ظالم کو ظالم اور قاتل کو قاتل کہنے کی ان میں جرأت نہیں ہے۔امن عالم کے ٹھیکیداروں میں سے کسی نے بھی عام فلسطینیوں کے قتل عام پر نہ تو اسرائیلی جارحیت، دہشت گردی کی سرزنش کی ہے اور نہ ہی اسے جنگی جرائم کا گنہگار ٹھرایا ہے، جو اس بات پر مہر تصدیق ہے کہ عالمی قوتوں کی نظر میں فلسطینیوں کی زندگی کیا معنی رکھتی ہے۔ عالمی قوتوں کا اسرائیل کو فلسطینی مسلمانوں کے خلاف تشدد، دھمکیوں اور اشتعال انگیزیوں سے روکنے کی بجائے حمایت کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ امریکہ سمیت عالمی صیہونی و دجالی قوتوں کے ہاتھ فلسطینی مسلمانوں کے خون ناحق سے رنگے ہوئے ہیں۔
ان حالات میں فلسطین میں امن کا ضامن کون بنے گا، بظاہر حالات ایک بار اس خون ریز جنگ کو تو روک سکتے ہیں لیکن اس بات کی ضمانت کوئی بھی عالمی ادارہ اور قوتیں دینے سے قاصر ہیں کہ مستقبل میں اسرائیل دوبارہ ایسی سفاک اور ناپاک حرکت نہیں دہرائے گا جس سے مسلم امہ کے دل رنجیدہ ہوں۔
فلسطین کے ساتھ مسلمانوں کے قبلہ اول مسجد اقصیٰ کا مسئلہ زندگی موت کے ساتھ جڑا ہوا ہے فلسطین کسی بھی ایک مسلم ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ تمام امت مسلمہ کا مسئلہ ہے ابھی موقع ہے مسلم ممالک کو اپنی صفوں میں دراڑوں کو ختم کرتے ہوئے دنیاوی مفادات کو پس پشت ڈال کر فلسطینی مسلمانوں کی پشت پر کھڑا ہونا چاہیے جو اسرائیل کی جارحیت اور قبلہ اول مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لیے اسرائیل کے خلاف کل کی طرح آج بھی سیسہ پلائی دیوار کی مانند قوت ایمانی کے ساتھ کھڑے ہیں۔عرب اور مسلم ممالک کو چاہیے کہ اتحاد کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور انصاف پسند ممالک کو ساتھ لے کر جارح اسرائیل کو اس بات پر آمادہ کرے کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد نمبر242(1967)کے مطابق 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران قبضہ میں لیے گئے فلسطینی علاقے خالی کرے پھر آزاد فلسطین ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے۔اگر اسرائیل اس پر آمادہ نہیں ہوتا تو مسلم ممالک کو چاہیے کہ عالمی سطح پر اسرائیل کا بائیکاٹ کیا جائے مسلمانوں کے قبلہ اول اور فلسطینی مسلمانوں کے خلاف صیہونی و دجالی قوتیں ایک بھیانک سازش پر عمل پیرا ہیں جس کا حل وقت کی اشد ضرورت ہے۔مسلمانوں کے حکمران اپنے گریبانوں میں جھانکیں،وہ غیرت ایمانی کی کس سطح پر کھڑے ہیں، فلسطینی مسلمانوں کی حفاظت کے لیے کیا کردار ادا کر رہے ہیں یا بے حس بن کر غزہ میں اسرائیل کی جانب سے برپا کی گئی سلگتی قیامت کے شعلوں سے اٹھنے والی آخری چیخ کا انتظار کر رہے ہیں؟

جواب دیں

Back to top button