امریکا کا ہمارے میزائل پروگرام کو محدود کرنے کا مطالبہ ایٹمی مذاکرات میں رکاوٹ ہے، ایران

ایران نے کہا ہے کہ ایران اور امریکا کے درمیان ایٹمی مذاکرات کا راستہ بند نہیں ہے، لیکن امریکا کی جانب سے ایران سے بیلسٹک اور ہائپر سونک میزائل پروگرام کو محدود کرنے کے مطالبات بات چیت کے امکانات میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق ایران اور امریکا کے درمیان چھٹے دور کے مذاکرات اس وقت معطل ہوگئے تھے، جب اسرائیل اور امریکا نے ایران کی فوجی اور ایٹمی تنصیبات پر حملے کیے اور ایران نے جواباً اسرائیل پر بیلسٹک اور ہائپر سونک میزائلوں کی بارش کر دی تھی۔
ایران کی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سیکریٹری علی لاریجانی نے ’ایکس‘ پر اپنے بیان میں کہا کہ ہم واقعی معقول مذاکرات کے خواہاں ہیں، لیکن جب وہ میزائل پابندیوں جیسے معاملات اٹھاتے ہیں تو یہ ایک ایسا راستہ اپناتے ہیں، جو کسی بھی بات چیت کو ختم کر دیتا ہے۔
مغربی ممالک کا دعویٰ ہے کہ ایران کا یورینیم افزودگی پروگرام ایٹمی ہتھیار کے لیے مواد پیدا کر سکتا ہے اور ایران ایسا بیلسٹک میزائل بنانا چاہتا ہے جو ایٹمی ہتھیار لے جانے کے قابل ہو۔
ایران کا کہنا ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام صرف بجلی کی پیداوار اور دیگر سول مقاصد کے لیے ہے اور وہ انہی مقاصد کے لیے یورینیم کو ایندھن کے طور پر افزودہ کر رہا ہے۔
ایران نے ایسے میزائل بنانے کی تردید کی ہے جو ایٹمی ہتھیار لے جانے کے قابل ہوں، اور کہا ہے کہ اس کی دفاعی صلاحیتیں کسی بھی طرح کے ایٹمی پروگرام سے متعلق مذاکرات میں زیر بحث نہیں آسکتیں۔
لاریجانی کے یہ تبصرے اس وقت سامنے آئے ہیں، جب پچھلے ہفتے فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے اسنیپ بیک میکنزم شروع کیا تھا، جس کے تحت ایران کے ایٹمی پروگرام پر اقوامِ متحدہ کی پابندیاں دوبارہ عائد کی جا سکتی ہیں۔
ان تینوں ممالک نے دیگر شرائط کے ساتھ ایران پر زور دیا ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ ایٹمی مذاکرات میں شامل ہو، تاکہ اسنیپ بیک پابندیوں کے نفاذ کو 6 ماہ کے لیے مؤخر کیا جا سکے۔