
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقے مسلح گروہوں کے قبضے میں ہیں، عوام انہیں بھتہ دینے پر مجبور ہیں، کوئی شک نہیں کہ صوبے کے قبائلی علاقوں میں حکومتی رٹ پر سوالیہ نشان ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اسلام آباد میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے زیرِ اہتمام آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) سے خطاب کرتے ہوئے خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع میں حکومت کی رٹ پر سوال اٹھایا دیا، ساتھ ہی اے پی سی میں شریک مختلف سیاسی جماعتوں نے اپنے مطالبات پر مبنی مشترکہ اعلامیہ بھی پیش کیا۔
اے پی سی سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نےکہا کہ مسلح گروہ حکومت کی طرف سے منظور شدہ فنڈز کا 10 فیصد حصہ لیتے ہیں، انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ 7 سال بعد قبائلی اضلاع کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے باوجود جرگہ نظام بحال کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔
آل پارٹیز کانفرنس سے اے این پی کے مرکزی صدر سینیٹر ایمل ولی خان، نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ محسن داوڑ، قومی وطن پارٹی کے چیئرمین آفتاب احمد خان شیرپاؤ اور بی این پی-ایم کے ثناء اللہ بلوچ سمیت دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا۔
ایمل ولی خان نے آل پارٹیز کانفرنس کا اعلامیہ پڑھ کر سنایا، جس میں کہا گیا کہ پاکستان بالخصوص خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں جاری بدامنی، دہشت گردی اور آئینی حقوق کی خلاف ورزیاں ماضی کی غلط داخلی و خارجی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔
مزید کہا گیا کہ تمام شریک جماعتوں کا اتفاق ہے کہ پاکستان میں پائیدار امن و ترقی اُس وقت ہی ممکن ہے جب جمہوریت، آئین کی بالادستی اور صوبوں کے جائز حقوق کو یقینی بنایا جائے گا۔
قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں جاری تمام فوجی آپریشنز فوری طور پر ختم کیے جائیں اور جانی و مالی نقصانات کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کے لیے عدلیہ کی نگرانی میں ایک ’ٹروتھ کمیشن‘ تشکیل دیا جائے۔
نام نہاد ڈیتھ اسکواڈز اور غیرقانونی مسلح گروہوں کو فوراً ختم کیا جائے اور عوام کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔
قرارداد میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ 18ویں ترمیم کو اس کی اصل روح کے مطابق مکمل طور پر نافذ کیا جائے تاکہ صوبوں کو ان کے جائز اختیارات مل سکیں۔
اعلامیہ میں فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) کو فیڈرل کانسٹیبلری میں تبدیل کرنے کی مذمت کی گئی اور بلوچستان میں لیویز کو پولیس میں ضم کرنے کی تجویز کی بھی مخالفت کی گئی۔
اعلامیے میں اے این پی کے شہید رہنماؤں کے قاتلوں کی گرفتاری میں ناکامی پر افسوس کا اظہار اور اے این پی رہنما مولانا خان زیب کے قتل کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کے قیام کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
خیبر پختونخوا میں سیلابی صورتحال پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے اے پی سی نے 23 اگست کو طے شدہ ’اسلام آباد امن مارچ‘ بھی ملتوی کردیا، بیان میں کہا گیا کہ اسلام آباد امن مارچ کی نئی تاریخ باہمی مشاورت سے طے کی جائے گی۔
عوامی نیشنل پارٹی کی زیر انتظام کانفرنس میں پیپلز پارٹی، جماعتِ اسلامی، ایم کیو ایم، جے یو آئی (ف)، بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل (بی این پی-ایم) سمیت دیگر جماعتوں کے نمائندے شریک ہوئے۔