سادات کا بخاری

فیصل اکبر
نسل در نسل اندرون شہر بھاٹی گیٹ کے باسی ہونے کے باوجود ہم کبھی حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار کے کبھی اتنا قریب نہ پہنچ سکے جتنا شعبہ صحافت میں وارد ہونے کے بعد قریب ہوسکے، تب بھی عرس مبارک ہوتا، اور اب بھی ہورہا ہے، ان شا اللہ تاقیامت ہوتا رہے گا۔لیکن جن لوگوں نے ماضی میں یہاں عرس کے انتظامات دیکھے اور اب دیکھ رہے ہیں یقیناً وہ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ حضرت داتا گنج بخشؒ کے عرس مبارک پر جیسا اہتمام اب ہوتا ہے، پہلے کبھی نہیں ہوا، اس کی وجہ صرف ایک شخصیت ہے، جس کا نام ڈاکٹر طاہر رضا بخاری ہے، بطور سیکرٹری اوقاف انہوں نے جس طرح اولیاء اللہ کے مزارات پر آنیوالے زائرین کی خدمت کی، اور تصوف کو عام کرنے کیلئے اقدامات کئے وہ واقعی لاجواب ہیں، اور ماضی میں اِس کی نظیر نہیں ملتی ۔ یہی وجہ ہے کہ صرف پنجاب ہی نہیں بلکہ وطن عزیز اور دیگر اسلامی ممالک کی مذہبی شخصیات بھی اِنکی کاوشوں کی قدر کرتی ہیں، اور جب بھی بخاری صاحب انہیں مدعو کرتے ہیں وہ پاکستان تشریف لاتی ہیں۔
حضرت داتا گنج بخشؒ کے عرس مبارک پر سرکاری اندازے کے مطابق 10سے 13 لاکھ افراد تین دنوں میں مزار پر حاضری دیتے ہیں جبکہ ایک اور اندازے کے مطابق تعداد 15 سے 18 لاکھ ہوتی ہے، پس تصور کریں کہ دو چار سو لوگوں کیلئے گھر میں اہتمام کرنا ہم لوگوں کیلئے کتنا مشکل مگر جہاں روزانہ 4 سے پانچ لاکھ دربار پر حاضری دیں ان کی سکیورٹی، انہیں نظم و ضبط رکھنا، ان کی درگاہ تک رسائی، پانی، لنگر، فرسٹ ایڈ، پھر اہم مذہبی، سیاسی، حکومتی شخصیات کی مزار پر آمد، عرس کے ایام میں محافل سماع، قرآن خوانی، نعت خوانی کی تقریبات کا چوبیسوں گھنٹوں اہتمام ، ان تمام معاملات کو چوبیسوں گھنٹے دیکھنا اور انتظامی معاملات پر کڑی نظر رکھنا یقیناً اللہ تعالیٰ کے کرم، نبی کریم ﷺ کے صدقے اور صاحب ِ دربار کے خصوصی نظر ِ کرم کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ لہٰذا جب بھی حضرت داتا گنج بخشؒ کا عرس مبارک ہوتا ہے، ڈاکٹر طاہر رضا بخاری عرس سے چند روز قبل ہی دربار کے انتظامی حصے کو اپنا دفتر اور آرام گاہ بنالیتے ہیں، اور عرس کے اختتام تک پھر یہی ان کا گھر اور دفتر ہوتا ہے، انکے ساتھ آصف اعجاز صاحب ہوتے ہیں، پھر اوقاف کے وہ تمام تر ملازمین جن کا داتا دربارؒ کی انتظامیہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا وہ بھی عرس کے دنوں میں دربار کی انتظامیہ کے شانہ بشانہ تفویض ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں، یوں عرس کے تینوں دن اور چوبیسوں گھنٹے لاکھوں زائرین کی خدمت ہوتی ہے۔ ہزاروں درگاہوں کے سجادہ نشین اپنے مریدین کے ساتھ مزار حضرت داتا گنج بخشؒ پر حاضری کیلئے تشریف لاتے ہیں، انہیں خصوصی احترام اور عزت کے ساتھ اندر لایا جاتا ہے، حکومتی اور سیاسی شخصیات کو بھی خصوصی انتظامات کے ساتھ مزار شریف پر لایا جاتا ہے، ہر آنیوالے مہمان کو اِن کے شایان شان عزت دی جاتی ہے، لنگر پیش کیا جاتا ہے، مزار شریف پر جتنا وقت وہ موجود رہتے ہیں انہیں ہر سہولت فراہم کی جاتی ہے، غرضیکہ تین دن چوبیسوں گھنٹوں ڈاکٹر طاہر رضا بخاری اور ان کی ٹیم کے چہرے پر مسکراہٹ تو نظر آتی ہے مگر مسلسل جاگنے کی وجہ سے تھکاوٹ نظر نہیں آتی، اگرچہ پولیس اور دیگر محکموں کے جوان اپنی اپنی شفٹ میں ڈیوٹی کرکے گھر چلے جاتے ہیں مگر جو تین چار دن مسلسل دربار شریف پر ہمہ وقت حالت حرکت میں رہتے ہیںوہ خود ڈاکٹر طاہر رضا بخاری اور ان کی ٹیم کے ارکان ہوتے ہیں جن میں آصف اعجاز قابل ذکر ہیں کیونکہ انہوں نے انتظامی معاملات کے ساتھ ساتھ سب سے مشکل ’’میڈیا ‘‘کو بھی کوریج کیلئے سہولیات فراہم کرنا ہوتی ہیں، جب بخاری صاحب خود متحرک ہوتے ہیں تو ان کی ٹیم میں جوش پیدا ہوتا ہے، وہ بھی اپنا سربراہ کو دیکھ کر تازہ دم ہوجاتے ہیں، پس میں سمجھتا ہوں کہ جب ہم دو چار سومہمانوں کا اہتمام کرتے ہوئے خوفزدہ ہوتے ہیں تو جنہوں نے لاکھوں لوگوں کا عرس کے تینوں دن اور چوبیسوں گھنٹے استقبال کرنا ہے، انہیں ہر ممکن سہولت فراہم کرنی ہے، دیانت داری کا تقاضا یہی ہے کہ ان کی ناصرف دل کھول کر تعریف و توصیف کرنی چاہیے بلکہ ممکن ہو تو ان کی مدد کیلئے آگے بھی بڑھنا چاہیے مثلاً عرس کے دوران مجھے پولیس نے اینٹری کے مقام پر کئی گھنٹے روکے رکھا، یہ ایک فرد کا فعل تھا، مجھے غصہ ضرور آیا لیکن ایک سپاہی کی اِس حرکت کو میں اپنے سر پر سوار نہیں کرسکتا۔ مزار شریف کے احاطے میں داخل ہونے پر مجھے احساس ہوا کہ وہ تمام لوگ جنہیں ٹرے میں رکھ کر چائے اور پانی پیش کیا جاتا ہے، وہ زائرین کی قطاریں بنوارہے ہیں تاکہ بدنظمی نہ ہو، کوئی کچن ایریا میں مقدار اور کوالٹی کیلئے پسینے میں شرابور کھڑا ہے، کوئی زائرین سے فیلڈ بیک لے رہا ہے، یہ واقعی سب کچھ حیران کن تھا، مگر اب سوچتا ہوں کہ جس طرح مزار شریف پر تصوف کانفرنسز، محافل نعت، محافل سماع، قرآن خوانی اور ایسی روح پرور محافل کا انعقاد شروع ہوا کیا بخاری صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی ایسا اہتمام کرپائے گا؟ یقیناً ناممکن نہیں تو ناممکن کے قریب تر۔ بخاری صاحب کا تعلق جس خاندان سے ہے، انہوں نے اپنے خاندان اور اپنے بزرگوں کا اپنے عمل سے نام مزید روشن اور بلند کیا ہے، اِن کی جگہ پر کوئی اور افسر ہوتا تو شاید اِسے ’’تصوف ‘‘کی الف ، ب بھی معلوم نہ ہوتی، بخاری صاحب نے واقعی محکمہ اوقاف کو ایک نئی شکل دی اور ملازمین کو اولیاء اللہ کا گرویدہ بنایا، بلاشبہ انہیں جو تربیت اپنے اسلاف سے ملی، وہ آج ہمیں دیکھنے کو مل رہی ہے، وہ جو کچھ کررہے ہیں شاید اِس سے کہیں زیادہ کرسکتے ہیں، کیونکہ انہوں نے اپنی تقرری کے دوران جو کچھ اولیاء اللہ کی خدمت کے زمرے میں کیا، اِس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی، بلاشبہ طاہر رضا بخاری صاحب اور انکی ٹیم خصوصاً آصف اعجاز صاحب قابل تعریف سے کہیں زیادہ تحسین کے مستحق ہیں، ان سب کی سرکاری سطح پر سرکار کو حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، کیونکہ خدمت وہی جو بے لوث ہو، جو یہ حضرت داتا گنج بخشؒ کے مہمانوں کی کرتے ہیں، یہاں وہ تمام افسران جو مزار شریف کے انتظامی معاملات دیکھتے ہیں جن میں خاص طور پر ڈائریکٹر جنرل مذہبی امور خالد محمود سندھو، ڈائریکٹر ایڈ منسٹریشن اوقاف محمد شاکر، خطیب داتاؒدربار مفتی محمد رمضان سیالوی، ڈپٹی ڈائریکٹر ایڈ من آصف اعجاز، اسسٹنٹ ڈائریکٹر مذہبی امور حافظ محمد جاوید شوکت، ایڈ منسٹریٹر اوقاف داتاؒ دربار شیخ جمیل احمد، منیجرز اوقاف طاہر مقصود، محمد ناصر، زاہد بٹ، ایگزیکٹو آفیسر مرکز معارف اولیاء مشتا ق احمد اور اوقاف انتظامیہ کے دیگر افسران و اہلکار، جن کے نام مجھے یاد نہیں، وہ تمام قابل تعریف ہیں جو زائرین کی خدمت کیلئے دن رات واقعی ایک کر دیتے ہیں، مگر چہرے پر ناراضی نہیں لاتے، یہ ٹیم بنانے پر ڈاکٹر طاہر رضا بخاری کی جتنی تعریف کی جائے، کم ہوگی، اگرچہ مزار شریف کی تزئین و آرائش کا کام جاری ہے، مگر اِس کے باوجود عرس پر زائرین کو کسی نوعیت کی کمی نہیں ملی، پچھلے سال سے زیادہ بہتر انتظامات کئے گئے، اور ہر ممکن حد تک زائرین کوسہولیات دی گئیں، چونکہ حضرت داتا گنج بخشؒ سے میری خصوصی عقیدت ہے اس لئے صرف یہی درگاہ ہمیشہ مدنظر رہتی ہے، لیکن میرا یقین ہے کہ جس طرح یہاں پرمعاملات کو بہتر حکمت عملی اور مثالی ٹیم کے ساتھ چلایا جارہا ہے یقیناً صوبے کے دیگر مزارات پر بھی ایسے ہی اہتمام کئے جاتے ہونگے۔اِس لئے کہنا چاہوں گا کہ سادات کایہ بخاری واقعی سادات اور اسلاف کی مہمان نوازی کی مثال قائم کرتا ہے۔