اخراجات میں کمی کے دعوؤں اور کفایت شعاری اقدامات کے باوجود وفاقی حکومت کے امور چلانے کا خرچہ تقریباً 14 فیصد بڑھ گیا، اخراجات حکومتی ہدف اور نظرثانی تخمینے سے بھی بڑھ گئے۔ وفاقی وزارتوں، ڈویژنز اور اداروں کے روزمرہ آپریشنل اخراجات، تنخواہوں اور انتظامی امور سمیت دیگر خرچوں پر مشتمل وفاقی حکومت کے اخراجات میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ وزارت خزانہ کی دستاویزات کے مطابق مالی سال 25-2024 کے دوران حکومتی امور چلانے پر 892 ارب روپے خرچ ہوئے، جب کہ حکومتی امور کو چلانے کے اخراجات کا ہدف 839 ارب روپے مقرر تھا اور نظرثانی تخمینہ 886 ارب روپے مقرر کیا گیا تھا۔ دستاویزات کے مطابق مالی سال 24-2023 میں حکومتی امور چلانے پر 784 ارب روپے، مالی سال 23-2022 میں 634 ارب اورمالی سال 22-2021 میں حکومتی امور چلانے کے اخراجات 547 ارب روپے تھے۔ وفاقی حکومت نے یکم جولائی سے شروع ہونے والے رواں مالی سال 26-2025 کے دوران حکومتی امور چلانے کے اخراجات میں مزید اضافے کا تخمینہ لگایا ہے اور جاری مالی سال میں حکومتی امور چلانے کے اخراجات کا ہدف 971 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔

فنکار اور سماجی کارکن ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نے ایک پُرجوش اور جذباتی ویڈیو پیغام میں فلسطینی عوام کے لیے پاکستان کی طرف سے عملی مدد کی کمی پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
اپنے پیغام میں ذوالفقار بھٹو جونیئر نے ریاستی رویے کو ’مدھم ردعمل‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ عوام بھی فلسطینیوں کی اذیت سے بے حس ہو چکے ہیں، انہوں نے کہا کہ ’فلسطین میں لوگ بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں۔ یہ قحط قدرتی نہیں، انسانوں کا پیدا کردہ ہے‘۔
انہوں نے بتایا کہ وہ ٹک ٹاک پر محصور فلسطینیوں کی طرف سے شیئر کردہ مناظر مسلسل دیکھ رہے ہیں، اور یہ مناظر اتنے دردناک اور بے ساختہ ہیں کہ ان سے نظریں ہٹانا ممکن نہیں۔
بھٹو جونیئر نے تسلیم کیا کہ پاکستان کی طرف سے چند بیانات جاری ہوئے، لیکن اس کے سوا کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا، حال ہی میں غزہ کے حق میں ہونے والے ایک احتجاج کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’نہ کوئی مذہبی تنظیم آئی، نہ کوئی شہری تنظیم، لوگ تھک چکے ہیں، بور ہو چکے ہیں‘۔
انہوں نے اس بات پر بھی سوال اٹھایا کہ پاکستانی فلسطین کے حق میں اپنی زبان استعمال کیوں نہیں کر رہے، ان کا کہنا تھا کہ نعرے بھی انگریزی یا عربی میں لگائے جاتے ہیں، اردو کا استعمال بہت کم ہوتا ہے۔
انہوں نے کہاہ ’جب یو اے ای، سعودی عرب اور بحرین جیسی ساری مسلم ریاستیں فلسطین کو چھوڑ چکی ہیں، تو ہمارے جیسے ملک کیوں خاموش ہیں؟‘۔
ذوالفقار بھٹو جونیئر نے الزام لگایا کہ پاکستان کی ریاست ’صہیونی ریاست‘ کو تسلیم کرنا چاہتی ہے، اس لیے اپنے لوگوں کو فلسطین کے لیے کھڑا ہونے سے روکا جا رہا ہے۔
غزہ میں حالات اب ناقابلِ تصور حد تک خراب ہو چکے ہیں, اب تک 61 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں ہزاروں بچے شامل ہیں۔ خوراک ناپید ہو چکی ہے، اور قحط کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
پاکستان کے اقوام متحدہ میں مستقل مندوب سفیر عاصم افتخار احمد نے حال ہی میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اسرائیل کے ’ظالمانہ اور غیر قانونی حملے‘ کو روکنے کا مطالبہ کیا تھا، لیکن بھٹو کے مطابق الفاظ اور عمل کے درمیان خلا واضح ہے۔
انہوں نے یاد دلایا کہ آن لائن غصے یا دوسروں کے نعرے دہرانے سے ہمدردی ثابت نہیں ہوتی،
انہوں نے کہا کہ ’خاموشی، چاہے ادارہ جاتی ہو یا ثقافتی، ایک انتخاب ہے، اور جب یہ خاموشی بھوک، جلاوطنی اور موت کے سامنے ہو، تو یہ مجرمانہ ہوتی ہے‘۔