اے مسلمانو!آتش نمرود سے گھبر اتے ہو۔۔۔؟
(تحریر:غلام مصطفی)
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
افسوس صد افسوس کہ فرقہ بندی کے خاتمے اور اتحاد بین المسلمین کے سلسلے میں شاید ابھی تک علماء کرام وہ کردار ادا نہیں کرپا ئے ہیں جوانہیں اداکرناچاہیے تھا، مسلمانوں کااتحاد پارہ پارہ ہوگیا، کسی زمانے میں مسلمانوں کے ایمان کی طاقت سے کفر کے درودیوار ہل جایا کرتے تھے، ان میں لرزہ طاری ہوجایاکرتاتھا، اگر آج دنیا کے دو ارب مسلمان تھوڑے سے فلسطینی مسلمانوں کو نہیں بچاسکتے تو پھر آخرایمان اور غیرت کس چیز کوکہتے ہیں؟ آخر آج صلاح الدین ایوبی کیوں پیدا نہیں ہورہے؟ اے مسلمانو! فلسطینی اور کشمیری مسلمان تمہار ی جانب دیکھ رہے ہیں۔دنیا جانتی ہے کہ فلسطین پر ناجائز قبضہ کیا گیاہے اور یہ قبضہ 1948 میں برطانیہ، عالم کفر اور سامراجی قوتوں کی سرپرستی میں کیا گیا تھا۔آج اگردنیا کے دو ارب مسلمان اتحاد قائم کرلیتے ہیں اور اپنی تحریک و جد و جہد کی ابتدا ء فلسطین اور کشمیر کی آزادی سے کرتے ہیں توآئندہ کسی میں بھی ہمت نہیں ہوگی کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ ظلم وزیادتی کرے اوراگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر سب کا انجام فلسطینیوں اور کشمیریوں سے مختلف نہیں ہوگا اور ایک ایک کرکے تمام مسلمان ایسی مشکلات میں پھنس جائیں گے، جہاں سے باہر نکلنا ناممکن ہوجائے گا۔ آج کا مسلمان آتش نمرود سے گھبراتا کیوں ہے؟ کیا آج وہی رب نہیں ہے جس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نمرود کی آگ سے بچالیاتھا، بیشک آج بھی وہی رب ہے اور وہی ہمیں بچائے گا، ہمیں صرف کوشش کرنی ہے باقی کام اللہ پر چھوڑ دیں۔ سب کچھ اچھا ہوجائے گا۔
ایک صحیح مسلمان کا مضبوط ایمان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین اسے کہتے ہیں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے اللہ پر کامل ایمان و یقین تھا،اور یہی وجہ تھی کہ صرف ایک اکیلا شخص، باطل کی طاغوتی قوتوں کے مقابل استقامت کا پہاڑ بن کر کھڑا ہوگیا،لیکن آج پوری دنیا میں کتنی بڑی تعداد میں مسلمان آباد ہیں اور قریباً57 کے قریب اسلامی ممالک ہیں جن میں کافی بڑی تعداد ایسے ممالک کی ہے جن کے پاس دنیا کی ہر نعمت وافر مقدار میں موجود ہے، ان میں ایٹمی قوت کے حامل بھی شامل ہیں لیکن اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ ہے ایمان اور اللہ کی ذات پر کامل یقین کی۔شاید آج کے مسلمان کو نہ آخرت پر یقین رہا ہے اور نہ ہی اس بات پرکہ زندگی، موت اور رزق اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور ہر چیز کا خالق ومالک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ آج ایمان کی کمزوری نے اس بہترین امت کو دنیا بھر میں ذلیل و خوار کررکھاہے تو اس کے پیچھے ہماری اپنی کوتائی اور ایمان کی کمزوری ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بتوں کی مخالفت اور کچھ بتوں کو توڑنے کے الزام میں بطور سزا نمرود نے آگ میں ڈالنے کافیصلہ کیاتوپوری قوم لکڑیاں جمع کرنے میں مصروف ہوگئی۔نمرود کی آگ کے بارے میں کہتے ہیں آگ کے غضب ناک شعلے آسمانوں تک پھیلے ہوئے تھے اوریہ آگ بہت گہرائی میں تھی یعنی آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کررہے تھے، آگ کی تپش کی وجہ سے کوئی بھی اس کے قریب نہیں جاسکتاتھا۔جس دن لکڑیوں کے ڈھیرمیں آگ لگائی جانی تھی اْس سے پہلے شیطان نمرود کے پاس آیا اور کہنے لگا بادشاہ سلامت!آگ کی تپش کی وجہ سے کوئی بھی آگ کے قریب نہیں جاسکے گا،اس کا حل میں بتاتاہوں، تم ایسا کرو اپنا ایک قابل شخص میرے حوالے کرو، میں اسے ایک ایسی مشین بنانا سکھاؤں گا جس سے کسی بھی چیز کو کافی دور تک پھینکا جاسکتا ہے۔نمرود کے کند ذہن میں خوشی کی لہراٹھی اور اس نے فوراً ایک بندہ شیطان کے حوالے کردیا۔”علامہ عمادالدین، ابنِ کثیر رحمتہ اللہ تحریر فرماتے ہیں کہ ”جو مشین بنائی گئی، اسے”منجنیق“کا نام دیا گیا۔ سنگ باری کی یہ دستی مشین ایک مقام پر کھڑی کردی گئی۔ منجنیق بنانے والے شخص کا نام ہیزن تھا۔ وہ دنیا کا پہلا انسان تھا، جس نے منجنیق بنائی‘ جس کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے اْسے زمین میں دھنسا دیا اور وہ قیامت تک زمین ہی میں دھنسا ہی رہے گا۔“ (قصص ابنِ کثیر، صفحہ 167)“(بشکریہ محمود میاں نجمی صاحب)
بے شک ہوتا وہی ہے جواللہ تعالیٰ چاہتاہے، جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالاجارہاتھاتو اس وقت ارشادِ باری تعالیٰ ہوا کہ ”اے آگ ٹھنڈی پڑجا اور ابراہیم کے لیے سلامتی والی بن جا۔“ (سورہ الانبیاء69)۔
اور پھر سکینڈوں میں آگ ٹھنڈی اور سلامتی والی بن گئی۔اللہ کی ذات پر کامل یقین رکھنے والوں کے لیے یہ ایک بڑا معجزہ ہے کہ آسمان سے باتیں کرتی دہکتی، بھڑکتی آگ گل و گلزار بن گئی۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی کیسے حفاظت فرمائی اور اسے مشرکین کی شیطانی سازشوں سے بھی محفوظ فرمادیا۔
آج اگر یہ سمجھنا ہو کہ کون سے ممالک،کون سی حکومتیں،کون سی جماعتیں واقعی اسلام کی،قرآن کی اور رسول اللہ ﷺکی پیروکار ہیں تو یہ دیکھنا ہوگا کہ ان کا سیاسی قبلہ وائٹ ہاؤس ہے یا بیت المقدس اور خانہ کعبہ ہے۔کون اس وقت مسلمانوں کی حمایت کررہا ہے اور کون مسلمانوں کے قاتلوں کی پشت پناہی کررہاہے۔وہ کون ہے جو عالم کفر سے دوستی کاہاتھ بڑھارہاہے اور اہل کفر و شرک کے تلوے چاٹ رہا ہے۔آج کشمیر اور فلسطینی مسلمانوں کا ساتھ کون دے رہاہے۔؟تمام مسلمانوں کو یہ دیکھناہوگا اور سوچنا ہوگا کہ کون حقیقی معنوں میں مسلمانوں کا خیرخواہ ہے اور کون ان کا دشمن ہے۔عالم کفر نے فلسطین پر جس پلاننگ کے تحت قبضہ کیاہے وہ محض سرزمین فلسطین پر قبضہ کی پلاننگ نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کے خلاف ایک گہری سازش ہے۔ اس وقت صہیونیوں کا مقابلہ صرف فلسطینیوں سے نہیں ہے اور نہ ہی یہ کہہ کر جان چھڑائی جا سکتی ہے کہ یہ فلسطینیوں اور اسرائیلوں کا مسئلہ ہے، ایسا نہیں ہے حقیقت تو یہ ہے کہ یہ مسئلہ پورے عالم کفر اور عالم اسلام کا ہے۔اسرائیل کے ناپاک اور مذموم عزائم کا ساتھ پورا عالم کفر، مغربی دنیا دے رہی ہے اور ان کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک ایسا محاذ قائم کرنا ہے جس کا مقصد عالم اسلام کو تیزی سے پھیلنے سے روکناہے۔ اس بناپر مسئلہ فلسطین کا تعلق جہاں دین سے ہے وہیں عالم اسلام کی سلامتی اور امن سے بھی جڑا ہے۔ بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول ہے جس کی حفاظت اور آزادی مسلمانوں پر فرض ہوچکی ہے۔ جو قبلہ اول کو پشت دکھا ر ہے ہیں وہ چاہے زندگی بھر خانہ کعبہ کی طرف رْخ کرکے نمازیں پڑھتا رہیں ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
گزشتہ 7دہائیوں سے مسلمانوں کو غاصب اور دہشت گرد اسرائیل کے خطرناک عزائم کا سامناہے۔اسرائیل فلسطینی مجاہدین کو ختم کرنے کی آڑ میں مسلسل بے گناہ شہریوں جن میں بچے اور عورتیں بڑی تعداد میں شامل ہیں، ان کے گھروں، ہسپتالوں، بازاروں، سڑکوں اور مساجد پر وحشیانہ بمباری کر رہا ہے۔ اب تک 11ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں بچے اور عورتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اسرائیل کی اس وحشیانہ بمباری اور دہشت گردی کے خلاف کوئی مغربی ملک آواز اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہے، کوئی ملک یہ نہیں کہہ رہاکہ یہ کھلی دہشت گردی ہے، لیکن اگر کہیں پر مسلمانوں کے ہاتھوں کوئی ایک غیر مسلم وہ بھی ذاتی حیثیت میں قتل ہوجائے تو پوری دنیا اسے دہشت گردی سے جوڑنے لگ جاتی ہے جو بہت انصاف کاقتل اور کھلا تضاد ہے۔ کیادنیا کے 7ارب انسان یہ بتا سکتے ہیں کہ اگر دنیا میں کہیں بھی انسانوں کو زندہ جلایا جارہا ہو، بے گناہوں کے گلے کاٹے جارہے ہوں، عورتوں اور معصوم بچوں پر ظلم وجبر کے پہاڑ توڑے جارہے ہوں، بے گناہ افراد کے گھروں کو مسمار کیا جارہا ہو، نہتے لوگوں پروحشیانہ طریقے سے بم برسائے جارہے ہوں، ان حالات میں کیا کوئی مسلمان یا کوئی بھی حکمراں یہ کہہ سکتا ہے کہ مجھے اس سے کیا مطلب؟ کیا کوئی انسان یہ سب کچھ دیکھ کر اور سن کر خاموش رہ سکتا ہے؟ اوراگر کوئی پھربھی خاموش ہے تو وہ ہرگز ہرگز نہ تو مسلمان ہے اور نہ ہی انسان کہلانے کے لائق ہے۔ وہ مسلمان ہی نہیں جس کے دل میں دوسرے مسلمان (بھائی) کے لیے کوئی احساس نہ ہو، اسے دوسرے کے دکھ ودرد سے کوئی واسطہ نہ ہو۔ ایسا شخص پتھر تو کہلاسکتاہے لیکن انسان کہلانے کے لائق بالکل نہیں ہے۔ اگرتمام مسلمان اور اسلامی حکومتیں غاصب اسرائیل اور بھارت کے حامیوں کو لگام دینے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہو جائیں تو کشمیری اور فلسطینی عوام کی تقدیر بدل سکتی ہے انہیں ان مظالم سے بچایاجاسکتاہے۔ کم از کم ہمیں ظلم کے خلاف تو کھڑے ہوجاناچاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اہل کفر پر غلبہ اور کامیابی عطا فرمائے۔