ایران میں زیرِ تعلیم درجنوں طلبہ گبد بارڈر پر پھنس گئے، سرحد عبور کرنے کے منتظر

ایران کے مختلف مذہبی مدارس میں زیرِ تعلیم درجنوں طلبہ گزشتہ 2 دن سے گبد بارڈر پر پھنسے ہوئے ہیں اور سرحد عبور کرنے کے منتظر ہیں۔
ان طلبہ میں سے کچھ محرم کے دوران وطن واپس آئے تھے، جب کہ دیگر ایک ماہ قبل ایران-اسرائیل جنگ کے باعث واپس آئے، اور ان میں سے تقریباً تمام کے پاس ایرانی حکومت کی طرف سے جاری کردہ درست سفری دستاویزات موجود ہیں، تاہم یہ سرحدی گزرگاہ، جو گوادر شہر سے تقریباً 70 کلومیٹر دور واقع ہے، جنگ شروع ہونے کے بعد سے بند ہے۔
پھنسے ہوئے افراد ہوٹلوں اور دیگر اقامت گاہوں میں مقیم ہیں، جب کہ امیگریشن حکام ان کی روانگی کے لیے ’نئے احکامات‘ کے منتظر ہیں، حالیہ دنوں میں عراق اور ایران کے لیے سڑک کے ذریعے سفر پر عائد پابندی نے معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایک اہلکار (جو گبد بارڈر پر تعینات ہیں) نے کہا کہ طلبہ کے پاس درست سفری دستاویزات موجود ہیں، لیکن چوں کہ سرحد ابھی تک بند ہے، اس لیے انہیں گزرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر آصف نسیم نے بتایا کہ پاکستانی حکام کی طرف سے ایران کے ساتھ (جنگ کے خاتمے کے بعد بھی) سرحد کھولنے کے لیے کوئی نیا حکم جاری نہیں کیا گیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ سرحد کی پہلے سے بندش کے علاوہ، حکومت کے حالیہ فیصلے کے تحت چہلم کے دوران سڑک کے ذریعے سفر پر پابندی نے بھی مشکلات بڑھا دی ہیں، ایف آئی اے اہلکار کے مطابق، طلبہ فضائی راستے سے اپنی منزل تک جا سکتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں ایرانی سفارت خانے نے زائرین کے لیے ہدایات جاری کی تھیں کہ زمینی راستے سے داخلہ پاکستانی حکومت کی منظوری سے مشروط ہوگا، ایک دن بعد حکومت نے سیکیورٹی خدشات کے باعث ایسے سفر کی اجازت نہ دینے کا اعلان کیا تھا۔
تاہم، یہ واضح نہیں کیا گیا کہ پابندی صرف چہلم کے زائرین پر نافذ ہوتی ہے یا ایران جانے والے تمام مسافروں پر، بہرحال، جنگ کے بعد سے ایران کے ساتھ زمینی سرحدیں دوبارہ نہیں کھل سکی ہیں۔
مجلس وحدت المسلمین (ایم ڈبلیو ایم) کے عہدیدار مولانا علی انور (جو ایک پھنسے ہوئے طالب علم کے بھائی بھی ہیں) نے کہا کہ گبد بارڈر پر 50 سے زائد طلبہ، کچھ اپنے خاندانوں کے ساتھ پھنسے ہوئے ہیں، جب کہ سیکڑوں مزید کراچی اور دیگر شہروں میں منتظر ہیں، پاکستانی امیگریشن حکام کا کہنا ہے کہ انہیں ابھی تک خروج کی کارروائی کے احکامات موصول نہیں ہوئے۔
انہوں نے بتایا کہ بہت سے طلبہ جو اقامہ رکھتے ہیں، ہر سال محرم کی چھٹیوں میں اپنے وطن واپس آتے ہیں اور اسلامی مہینے صفر میں دوبارہ ایران لوٹتے ہیں۔