ایران کے صدر پزشکیان کا دورہ اسلام آباد کیوں موخر ہوا؟ دونوں ملکوں کے تعلقات میں نیا موڑ

صہیونی حکومت کی بڑھتی ہوئی جارحیت کے تناظر میں صدر پزشکیان کا دورہ اسلام آباد ایران و پاکستان کے درمیان دفاعی تعاون اور اسرائیل مخالف اتحاد کو نئی تقویت دینے کی کوشش ہے۔
اسلامی جمہوری ایران کے صدر مسعود پزشکیان کا مجوزہ دورۂ پاکستان جو رواں ہفتے ہونا تھا، پاکستان کی درخواست پر مؤخر کردیا گیا ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق دونوں ممالک کی باہمی رضامندی سے طے پایا کہ یہ دورہ اب 2 اور 3 اگست 2025 کو انجام پائے گا۔
یہ دورہ اس وقت اور بھی اہمیت اختیار کر گیا ہے جب ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ کا خاتمہ ہوا ہے اور خطے میں سیاسی و سفارتی صف بندیاں نئی شکل اختیار کررہی ہیں۔ اسی تناظر میں ہم نے ایران اور پاکستان کے بڑھتے ہوئے قریبی تعلقات کا جائزہ لیا ہے۔
ایران اور پاکستان کے درمیان 70 سال سے زائد عرصے پر محیط تاریخی، مذہبی اور ثقافتی تعلقات قائم ہیں۔ یہ تعلقات نہ صرف دوطرفہ سطح پر مضبوط ہیں بلکہ علاقائی اور عالمی اداروں میں بھی دونوں ممالک نے ہمیشہ ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔ حالیہ برسوں میں سیاسی، دفاعی، تجارتی اور ثقافتی میدان میں تعاون میں خاصی پیش رفت ہوئی ہے، اور اعلی سطحی دوروں سے لے کر سرحدی منصوبوں تک، دو طرفہ قربت مزید گہری ہوئی ہے۔
ایران و پاکستان کی فکری و سیاسی ہم آہنگی کی ایک واضح مثال حالیہ ایران-اسرائیل جنگ میں دیکھی گئی۔ پاکستانی قیادت نے کھل کر ایران کی حمایت کی۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے ایرانی صدر سے رابطہ کرکے اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کی، جب کہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان ایران کے مفادات کا دفاع کرے گا۔ انہوں نے اسلامی تعاون تنظیم کا ہنگامی اجلاس بلانے کی تجویز بھی دی تاکہ اسرائیلی جارحیت کا اجتماعی جواب دیا جاسکے۔ یہ یکجہتی دونوں ممالک کے اسرائیل مخالف نظریات اور عالم اسلام میں اتحاد و مزاحمت کے فروغ کی جانب ایک قدم سمجھا جا رہا ہے۔
اس کے بعد پاکستان کی سینیٹ نے ایک مسودہ قرارداد منظور کیا جس میں اسرائیلی حملوں کے مقابلے میں ایران کی حمایت کا اعلان کیا گیا۔ تاہم یہ سرگرمیاں صرف بیانات اور قرارداد تک محدود نہ رہیں۔ اسرائیل کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں کے بعد پاکستان نے اعلان کیا کہ اس نے اپنے فضائی دفاعی نظام کو فعال کر دیا ہے اور جنگی طیارے اپنی جوہری تنصیبات اور ایران سے ملحق سرحدوں کے قریب تعینات کر دیے ہیں۔ پاکستان کے وزیر دفاع نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کے دفاعی نظام احتیاطی تدبیر کے طور پر مکمل الرٹ ہیں۔
جون 2025 میں ایران اور اسرائیل کے درمیان شروع ہونے والی جنگ کے بعد سے پاکستانی حلقے اس بات پر تشویش کا اظہار کرتے آرہے ہیں کہ پاکستان کا جوہری پروگرام اور خود اس کی سلامتی کو اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے خطرہ ہوسکتا ہے۔ انہی خدشات کی وجہ سے پاکستانی حکام نے ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملے یا ایران کی حکومت کو گرانے کی کسی امریکی یا اسرائیلی سازش کے خلاف واضح مؤقف اختیار کیا تاکہ اسلام آباد بھی مستقبل میں انہی طاقتوں کا نشانہ نہ بن جائے۔
یہ خدشات اس وقت مزید گہرے ہوگئے جب سوشل میڈیا پر اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کا ایک پرانا ویڈیو کلپ وائرل ہوا، جس نے اسلام آباد میں خاصی توجہ حاصل کی۔ اس کلپ میں نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل کسی بھی اسلامی ملک کو جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرنے دے گا۔ انہوں نے دعوی کیا کہ اسرائیل، ان حکومتوں کو نہ اندرون ملک جوہری ہتھیار تیار کرنے دے گا اور نہ ہی باہر سے درآمد کرنے دے گا۔ نتن یاہو نے کہا تھا کہ ایران ہمارا پہلا ہدف ہے اور پاکستان دوسرا۔
پاکستان کی جانب سے ایران کی جنگی حمایت کے پس منظر میں ایک بڑا مقصد یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ جنگ کے بعد قریبی تعلقات کو مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ اسی لیے جنگ کے خاتمے کے بعد، دونوں ممالک کی باہمی ہم آہنگی کے تحت طے پایا کہ ایرانی صدر اسلام آباد کا دورہ کریں گے تاکہ تعلقات کا ایک نیا باب کھل سکے۔ ایران کبھی اپنے دوستوں اور اتحادیوں کو نہیں بھولتا، اور پاکستان ان چند ممالک میں شامل رہا ہے جنہوں نے 12 روزہ جنگ کے دوران کھل کر ایران کا ساتھ دیا۔ اب ایرانی صدر کے دورۂ پاکستان کے نتائج کا انتظار کیا جا رہا ہے۔
ایرانی پارلیمنٹ کی قومی سلامتی و خارجہ پالیسی کمیٹی کے رکن فدا حسین مالکی نے صدر ڈاکٹر پزشکیان کے اسلام آباد کے دورے کی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صہیونی حکومت کی جانب سے ایران، شام اور غزہ کے عوام کے خلاف مسلسل جارحانہ اقدامات نے تہران اور اسلام آباد کے درمیان اتحاد کو مزید مضبوط کیا ہے۔
ان کے مطابق، 12 روزہ جنگ کے دوران پاکستان نے نہ صرف اسرائیل کی جارحیت کی مذمت کی، بلکہ ایران کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے عزم کا اظہار بھی کیا، جو دونوں ملکوں کے قریبی تعلقات کا مظہر ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان واحد اسلامی ملک ہے جو ایٹمی طاقت رکھتا ہے اور ایران بھی خطے میں نمایاں مقام رکھتا ہے، اس لیے یہ دونوں بڑی مسلم طاقتیں مل کر عالمی سطح پر اپنے مفادات کے دفاع کے لیے اہم اتحاد قائم کرسکتی ہیں۔
مالکی نے ایران اور پاکستان کے درمیان انسداد دہشت گردی میں جاری تعاون کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ گذشتہ سال دونوں ممالک کے اعلی فوجی اور دفاعی وفود کے تبادلے جاری رہے، جن میں شہید جنرل محمد باقری کی سربراہی میں ایک اعلی سطحی وفد بھی شامل تھا، جو دفاعی تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے اسلام آباد گیا تھا۔ دونوں ملکوں کے عسکری حکام نے مشترکہ سرحدی سلامتی اور دفاعی استعداد میں اضافے پر تبادلہ خیال کیا۔
انہوں نے کہا کہ ایران اور پاکستان کی قیادتوں نے طے کیا ہے کہ دونوں ممالک اپنے مفادات کے خلاف کسی بھی ممکنہ خطرے سے مشترکہ طور پر نمٹیں گے۔ ایرانی صدر کا حالیہ دورہ پاکستان ان دفاعی و سکیورٹی روابط کو مزید وسعت دے گا۔
مالکی نے رہبر انقلاب آیت اللہ العظمی خامنہای کے گذشتہ سال پاکستانی وزیراعظم سے ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایران پاکستان کو اہم ہمسایہ اور شراکت دار سمجھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدر پزشکیان کے دورہ اسلام آباد کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید بہتری آئے گی جو دشمن قوتوں کے لیے ایک واضح پیغام ہوگا کہ تہران اور اسلام آباد کی قربت خطے میں تبدیلی لاسکتی ہے۔