پاکستان

سپریم کورٹ نے خواتین کو نشانہ بنانے کیلئے ’بانجھ پن کے الزامات‘ کو غیرقانونی قرار دیدیا

سپریم کورٹ نے خواتین کے خلاف بانجھ پن یا اس کے محض شبہے کو ’ہتھیار‘ بنا کر استعمال کرنے کی افسوسناک اور تکلیف دہ سماجی روایت کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) یحییٰ آفریدی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ سماجی تعصب اکثر عدالتوں کو ایک ایسے مقام میں بدل دیتا ہے, جہاں عورت کو قانونی کارروائی کے بہانے ذلت آمیز رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

چیف جسٹس اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے صالح محمد کی پشاور ہائیکورٹ کے 3 مارچ 2025 کے فیصلے کے خلاف دائر اپیل پر سماعت کی، یہ مقدمہ مہناز بیگم کے نان و نفقہ، مہر اور جہیز کی واپسی سے متعلق تھا۔

چیف جسٹس نے فیصلے میں کہا کہ یہ عدالت سب سے سخت الفاظ میں اس امر کی مذمت کرتی ہے کہ کس طرح ایک ایسی عورت، جسے نان و نفقہ سے محروم کیا گیا اور عدالتی کارروائی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا، اس خاتون کو بار بار اس کی نسوانیت کے حوالے سے تذلیل آمیز انداز میں جانچ کا نشانہ بنایا گیا۔

صالح محمد اور مہناز بیگم کی شادی 2006 میں ہوئی، لیکن 2007 میں مبینہ طور پر جسمانی تشدد کے بعد شوہر نے بیوی کو اس کے میکے چھوڑ دیا، بعد ازاں وہ بیرون ملک چلا گیا، تمام رابطے ختم کر دیے، نان و نفقہ دینے سے انکار کیا اور اسے عملی طور پر تنہا چھوڑ دیا، 3 سال بعد اس نے دوسری شادی کی اور اس رشتے سے 2 بچے بھی ہیں۔

مہناز بیگم نے 2015 میں قانونی کارروائی شروع کی تاکہ مہر، جہیز اور نان و نفقہ حاصل کر سکے۔

مدعی نے ان دعوؤں کو کسی معقول قانونی بنیاد پر چیلنج نہیں کیا بلکہ اس نے دفاع میں دعویٰ کیا کہ مہناز بیگم طبی طور پر ازدواجی تعلقات یا اولاد کے قابل نہیں، اور اس بنا پر اس کی قانونی حیثیت کو بطور ’عورت‘ چیلنج کیا، یہ دعویٰ طبی معائنوں سے مسترد ہو گیا، لیکن صالح محمد نے اس بنیاد پر مہر اور نفقہ دینے سے انکار جاری رکھا۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ممکن ہے کہ مدعی نے اسے کسی ذاتی شکایت کے طور پر دیکھا ہو، لیکن جس جارحانہ انداز میں اس نے اس الزام کو 3 عدالتی سطحوں پر مسلسل آگے بڑھایا، وہ نہایت تشویش ناک ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ یہ الزام، جو پہلے ہی تمام فورمز پر مسترد ہو چکا تھا، صرف عورت کو ذلت اور نفسیاتی اذیت دینے کا ذریعہ بن گیا۔

چیف جسٹس نے 7 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا کہ بانجھ پن، اگر موجود بھی ہو تو یہ مہر یا نفقہ سے انکار کی بنیاد نہیں ہو سکتا، اور نہ ہی کسی عورت کی نسوانیت کو چیلنج کرنے کا جواز بنتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس ذاتی تکلیف کو قانونی ہتھیار میں تبدیل کرنا، نہ صرف قانون کے عمل کا غلط استعمال ہے بلکہ انسانی وقار کی توہین ہے۔

چیف جسٹس نے اسلامی تعلیمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ قرآن پاک نے میاں بیوی کے رشتے کو لباس کی مانند قرار دیا ہے، یہ تعلق تحفظ، باہمی احترام اور عزت پر مبنی ہے جسے کسی صورت پامال نہیں کیا جا سکتا۔

چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے واضح کیا کہ عدالتیں خواتین کے خلاف سماجی تعصبات کو پروان چڑھانے کا ذریعہ نہیں بن سکتیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ صرف عدالتی صوابدید کا معاملہ نہیں بلکہ آئینی اور اخلاقی فریضہ ہے کہ عدالت میں پیش ہونے والے ہر فرد کی عزت کا مکمل تحفظ کیا جائے، خاص طور پر جب فریقین کے درمیان طاقت کا توازن واضح طور پر یک طرفہ ہو۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس میں مدعی نے نہ صرف عدالت کا وقت ضائع کیا بلکہ ایک پہلے سے ہی پسماندہ خاتون کو 3 عدالتوں میں ایک دہائی سے زائد تک ذلت، تکلیف اور بےعزتی کا نشانہ بنایا۔

عدالت نے مدعی کا مقدمہ خارج کرتے ہوئے اس پر 5 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا، جو مہناز بیگم کو ادا کیا جائے گا، تاکہ اس تضحیک آمیز کارروائی کی سخت مذمت کی جا سکے۔

چیف جسٹس نے فیصلے کے اختتام پر کہا کہ یہ فیصلہ تمام مدعیان اور وکلا کے لیے ایک یاد دہانی ہے کہ ہر فرد، خاص طور پر عورتوں کی عزت، عدالتی کارروائیوں میں ہر صورت ملحوظ خاطر رکھی جائے، خواتین کی تضحیک پر مبنی جھوٹے الزامات عدالتوں میں ہرگز برداشت نہیں کیے جائیں گے۔

جواب دیں

Back to top button