عالمی یوم ذیابیطس اور ہماری ذمہ داریاں
ضیاء الحق سرحدی
گزشتہ روز ایک مقامی ہوٹل سرینہ میں عالمی یوم ذیابیطس ڈے منایا گیا جو کہ”ایمبیسی آف ڈنمارک“نووونارڈیسک،صوبائی حکومت اور حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے تعاون سے منعقد ہوا۔ جس میں پاکستان کے مایہ ناز پروفیسر ڈاکٹر اے ایچ عامر نے اس دن کی نسبت سے سیمینار سے خطاب کیا، اس کے علاوہ صوبائی حکومت کے اراکین، بزنس کمیونٹی، چیمبر آف کامرس، فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس، سیکرٹری ہیلتھ،ڈی جی ہیلتھ خیبرپختونخوا کے علاوہ کثیر تعداد میں لوگوں اس معلوماتی سمینار میں شرکت کی۔ دنیا بھر میں ذیا بیطس سے بچاؤ کا عالمی دن 14 نومبر کو منایا جاتا ہے۔ یہ فریڈرک بینٹنگ کا یوم پیدائش بھی ہے جنہوں نے انسولین ایجاد کی، اس طرح اس دن اس عظیم ماہر طب کو خراج تحسین بھی پیش کیا جاتا ہے، مگر اس دن کا بنیادی مقصدذیابیطس کے حوالے سے آگاہی پیدا کرناہے۔ شوگر کی بیماری سے ہر 4 سیکنڈ میں ایک شخص کی موت واقع ہورہی ہے۔ اس بیماری کی وجہ سے ہونے والی 80فیصد اموات کا تعلق غریب اوردرمیانی طبقہ سے ہے۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے، جہاں ذیا بیطس کے مرض میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں قریباً 53 کروڑ 70 لاکھ لوگ ذیا بیطس کا شکار ہیں۔ مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافے کے باعث پاکستان تیسرے نمبر پر آگیا ہے۔ ماہرین نے ذیا بیطس پر قابو پانے کے لیے قانون سازی کے ذریعے شوگری مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ لازم قرار دے دیا۔ ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ ایک دن میں انسان کی ضرورت 5سے10چمچ چینی ہوتی ہے۔ موٹا پے اور دل کی بیماریوں کی بڑی وجہ بھی میٹھے کا غیر ضروری استعمال ہے۔ پاکستان میں قریباً 1.17 فیصد نوجوانوں میں ذیا بیطس کا مرض پھیل چکا ہے۔ آئی ڈی ایف اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)نے شوگر کی بڑھتی ہوئی خطر ناک شرح کے پیش نظر عوام میں شوگر سے بچا ؤاور بروقت علاج کے لیے عام آگہی پیدا کرنے کے لیے پہلی بار 1991کو شوگر کا عالمی دن منایا تھا۔ شوگر کے عالمی دن پر طبی ماہرین لوگوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ کن عام وجوہات سے ہوتی ہے اور اس سے بچاؤ کیسے ممکن ہے۔ طیبی ماہرین کے مطابق شوگر کی بنیادی وجوہات موٹاپا غیر صحت مندانہ طرز زندگی، خاندان میں شوگر کے مرض کا عام ہونا، غیر متوازن غذا،بڑھتی ہوئی عمر،بلڈ پریشرخون میں چکنائی کا عدم توازن کے بارے وجوہات، اسباب تحفظ اور باقاعدگی سے علاج کے بارے میں شعور پیدا کرنا ہوتا ہے۔
ہم ایک ایسے دور میں زندگی گزار رہے ہیں، جہاں غیر متعدی امراض سے فوت ہونے والوں کی تعداد متعدی امراض سے فوت ہونے والوں سے زیادہ ہے، یاد رہے کہ غیر متعدی امراض میں شوگر سرفہرست ہے۔ یہ شرح 1998 میں شائع ہونے والے پہلے سروے سے 22 اعشاریہ 4 فیصد زیادہ ہے، ایک خطر ناک پہلو جو اس سروے میں سامنے آیا دہ مریضوں کا ہے، جن کی شرح قریباً 15 فیصد ہے یعنی(پری ذیابیطس) وہ مریض ہیں جو شوگر کے مرض میں مبتلا ہونے کے قریب ہیں اور اگر یہ ان عوامل (Risk Factor)پر توجہ نہیں دیں گے تو آنیوالے چند سالوں میں شوگر کے مرض مبتلا ہو جائیں گے۔ گزشتہ سال طبی سروے رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ شوگر کی وجہ سے ہر 5 سیکنڈز کے بعد دنیا میں کہیں نہ کہیں ایک فردا اپنی جان کھو بیٹھتا ہے۔ شوگر ایک ایسا مرض ہے جو کم و بیش جسم کے ہر نظام کو متاثر کرتا ہے، اس کے اثرات فرد سے لے کر معاشرے تک محیط ہیں، شوگر جسمانی، ذہنی، سماجی اور معاشی لحاظ سے انسانی معاشرے پر اثر انداز ہوتی ہے، ڈاکٹر اور مریض کے بعد معاشرے میں خاندان پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مریض اور مرض دونوں کے حوالے سے اپنی ذمہ داری ادا کرے۔ خاندان شوگر کے انفرادی کنٹرول میں اہم کردار کر سکتا ہے، تاہم خاندان کے افراد کی جانب سے شوگر کے بارے میں کم علمی اور خاندان کی خستہ معاشی حالات کی وجہ سے خاندان بھی شوگر کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوسکتا ہے۔ خاندان میں شوگر کے بارے میں مناسب علم ہونے کے باعث ایسے افراد کی نشاندہی اور تشخیص بر وقت عمل میں لائی جا سکتی ہے جو شوگر میں مبتلا ہونے کے شدید عوامل اپنے اندر رکھتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ادویات، فیسیں اور ٹیسٹ مہنگا ہونے کے باعث بہت سارے افراد علاج سے محروم رہ جاتے ہیں، یہ حکومت اور معاشرے کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ صحت کے وسائل اسی حساب سے خرچ کئے جائیں۔ شوگر کی تشخیص ہوتے ہی اس کا بروقت علاج کرنا چاہیے۔ ناریل غذا، روزانہ ورزش اور روز مرہ امور بھی تبدیلی شوگر کا مرض 58فیصد کنٹرول کر سکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بیماری کا علاج اس وقت کروایا جاتا ہے جب وہ سنجیدہ ہو جائے،عمومی طور پر بیماریوں کی حساسیت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ایشیاء اور پاکستان یورپ میں صحت کی حفاظت کے حوالے سے بہت پیچھے ہیں جبکہ اس شعور میں پاکستانی اپنے ہمسایوں سے بھی پیچھے ہیں۔ مقامی سطح پر بیماریوں کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا چاہیے، علما کرام کی مدد اور معاشرے میں آگاہی فراہم کرکے بھی ذیا بطیس جیسی بیماریوں کے خاتمے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔