مظفرآباد اور نیلم کا علمی و ادبی منظر نامہ
(گزشتہ سے پیوستہ)
اس دوران سوسائٹی کے لیے تاجور صاحب کے ساتھ ساتھ جناب احمد عطا اللہ صاحب جو نیلم میں ڈپٹی کمشنر تھے اور جناب شیخ عتیق الرحمان صاحب جو ایک این جی او چلاتے تھے اللہ کی رحمت ثابت ہوئے۔ جناب عتیق صاحب نے سوسائٹی کی نشستوں کے لیے نہ صرف اپنا دفتر وقف کیا ہوا تھا بلکہ شرکا کے لیے ریفریشمنٹ کا اہتمام بھی ازخود اپنے ذمہ لے لیا تھا۔ جناب احمد عطا اللہ صاحب نے اپنی نگرانی میں بصیر صاحب کے تعاون سے کئی مشاعرے کروائے۔جن میں موجودہ دور کے پاکستان کے نامور شعرا شرکت کرتے رہے مثلا جناب عباس تابش صاحب، جناب رانا سعیددوشی صاحب۔سوسائٹی کی کارکردگی میں جشن نیلم نے بھی مہمیز کا کام کیا ہر سال سوسائٹی کے زیرِ اہتمام کل کشمیر جشن نیلم مشاعرے منعقد ہوتے رہا اور ہمارے نوجوان نام ور ہوتے گئے۔
سوسائٹی نے ایک قدم آگے بڑھایا اور آفاقی صاحب کی تجویز پر نیلم کے شعرا کے کلام سے انتخاب شائع کرنے کی تجویز پیش کی۔ ترتیب دینے کی تکلیف احمد وقار میر کے حصے میں آئی اور کلام کو شاملِ اشاعت بنانے کا شدید تکلیف دہ کام تاجور صاحب اور آفاقی صاحب نے اپنے ذمہ لیا اور کچھ ہی ماہ کے اندر ”کہکشاں“ شائع کروا کر اہلِ علم سے داد وصول کی۔
اسی دورران سوسائٹی نے ایک بڑا قدم اٹھایا کہ اس کی صدارت اصل حقدار کے سپرد کی گئی جو کہ حقیقتاً ایک بڑے ادیب، ایک مستند اور درجہ استاذی پر فائز شاعر، یوسفی کا اثر لیے نثر نگار، بہترین نقاد اور عظیم مصنف بھی ہیں یعنی جناب عبد البصیر تاجور صاحب اس فقیر کو سرہرستی کی تہمت سے متّہم کر کے رکھ دیا گیا۔ شکر ہے کہ سرپرستی تاحیات ہے۔ اب مجھے کسی کے قبضہ کا خطرہ نہیں۔
بلاشبہ سوسائٹی نے نیلم ہی نہیں بلکہ پورے آزاد کشمیر میں ادبی تحرّک کی فضا قائم کر کے رکھ دی آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ مضافات کے ادیب اور شعراء آزادکشمیربھر میں اور پاکستان کے مختلف ٹی وی چینلز پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں۔
ایک چھوٹی سی ادبی سوسائٹی اب اللہ کے فضل سے ایک تناور درخت ہے جس کی شاخیں آزاد کشمیر سے باہر بھی سایہ فگن ہیں۔
مجھ سے یہ سب کام تو ہو ہی نہ سکتے تھے (اور نہ ہوئے ہیں) اگر آفاقی صاحب کی تحریک تاجور صاحب کا ذوق ضیا صاحب کی لگن وقار صاحب کی ادب پرستی شامل نہ ہوتی اس کے باوجود ایک دعویٰ بلا دلیل کرتا ہوں کہ”شادم از زندگی خویش کہ کارے کردم“
آزاد کشمیر بھر سے اور پاکستان سے کثر تعداد میں شعرا ”فروغ علم و ادب سوسائٹی نیلم“ کے مشاعروں میں شرکت کرتے رہے ہیں کچھ اسما جو مجھے یاد رہ گئے ہیں اور مختلف ادوار میں تشریف لاتے رہے ہیں اور جن کو لانے کا مکمل ذریعہ تاجور صاحب ہیں ماسواے چند اسما کے جو احمد عطا اللہ صاحب کی معرفت تشریف لائے۔
جناب خالد اقبال یاسر چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان، جناب عباس تابش، جناب سعید دوشی، جناب ناز مظفرآبادی، جناب مخلص وجدانی، جناب فاروق صابر، جناب ماجد محمود جناب اعجاز نعمانی، جناب انجم سلیمی، جناب لیاقت شعلان، جناب علی احسن بخاری، جناب عامر شہزاد ہاشمی، جناب شوزیب کاشر، جناب حر کاشمیری، جناب قاسم سیلانی، جناب صداقت طاہر، جناب حسیب جمال، جناب حضور امام کاظمی، جناب حسن ظہیر راجا، جناب شہباز گردیزی، اور بہت سے اسما ہیں۔
آزاد کشمیر کا ادبی مورخ اگر سچا ہوا تو ”فروغِ علم و ادب سوسائٹی“ کے کٹھن ترین اور فائرنگ سے متأثر ترین ماحول میں انجام دی گئی ادبی خدمات کو نظر انداز نہیں کر سکے گا۔
دبستان مظفرآباد میں سخن سرائے تین چار سال سے ایک ادبی فورم ہے۔ اس سے قبل یہاں کے ادبی فورم مظفرآباد شہر کی حد تک کبھی کبھی مل بیٹھتے تھے اور کوئی ایسا پلیٹ فارم نہیں تھا، جو نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کرتا۔ اس فورم کا قیام اور ادبی سرگرمیاں مظفرآباد کی ادبی سانسوں کے رواں ہونے کی علامت ہیں۔ سخن سرائے کے کریڈٹ پر شعری نشستیں، مشاعرے، تنقیدی نشستیں،کتابوں کی رونمائی، کل کشمیر مشاعرے اور پاکستان سے آئے سینئر شعراء کی میزبانی کے ساتھ، آرٹ کے شعبہ سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی پذیرائی بھی ہے۔ یہ اسی تحرک کا نتیجہ ہے کہ اب مظفرآباد و مضافات میں اب بہت سے فورمز شعر وادب کے حوالے سے سرگرم ہیں۔ اور ادبی روایات کی تشکیل کر رہے ہیں۔
دبستان کشمیر سے بڑی شعری شخصیات جناب ناز مظفرآبادی،حر کاشمیری، سید قاسم سیلانی اور محترم حضور امام کاظمی سخن ور اور سخن شناس اس ادبی سلسلے کی سرپرست ہیں۔ مابعد کرونا ادبی سفر میں عبد البصیر تاجور اور علی احسن بخاری کا اہم کردار ہے۔ کسی قوم اور کسی بھی شہر کی شعوری زندگی کا انحصار وہاں کی شعری روایت کے تسلسل میں ہے۔ اور مضافات میں سانس لیتے اس ادب اور شعری شعورکا بہاؤ اب معروف ادبی سرزمینوں کی طرف ہے۔ادب کی رُکی سانسوں کی بحالی اور روانی قوموں اور تہذیبوں کی روح ہے۔اور یہی وہ شعور ہے جو انسانی تکریم اور عالمی امن کا ضامن بھی ہے۔