ایڈیٹوریل

سیاست مگر شائستگی سے!

آٹھ فروری کو عام انتخابات کے انعقاد کے اعلان اور میاں نوازشریف کی وطن واپسی کے بعد ملکی سیاست میں جان پڑ گئی ہے، سیاسی جماعتوں کے درمیان انتخابی اتحاد کے لیے روابط اور میل ملاقاتیں ہورہی ہیں۔ میاں نوازشریف سندھ میں ایم کیوایم کے قائدین سے ملاقات کے بعد آج بلوچستان جارہے ہیں۔ سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے انتخابی سیاست میں حصہ لینے والے سیاست دان من پسند پارٹیوں میں شمولیت اختیار کررہے ہیں اوربظاہر انتخابی اتحاد اور پارٹی میں شمولیت کے لحاظ سے اِس وقت مسلم لیگ نون کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے، کیونکہ زیادہ تر علاقائی سیاسی جماعتیں اور سیاسی شخصیات مسلم لیگ نون کو ہی ترجیح دے رہے ہیں۔ اس لحاظ سے پاکستان پیپلز پارٹی دوسرے نمبر پر نظر آتی ہے کیونکہ پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والوں کی تعداد اُتنی نہیں جتنی تعداد میں مسلم لیگ نون میں لوگ شمولیت اختیارکررہے ہیں اسی طرح علاقائی سیاسی جماعتوں کا بھی بہت زیادہ جھکاؤ مسلم لیگ نون کی طرف نظر آتا ہے۔ دوسری طرف اتحادی حکومت ختم ہونے کے فوری بعد مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے درمیان سیاسی معاملات پر ان بن شروع ہوگئی تھی جو ابھی تک جاری ہے، لہٰذا یوں لگتا ہے کہ دونوں جماعتیں عام انتخابات میں ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں گی، مسلم لیگ نون چاہے بھی تو جس سطح پرپہنچ کر پیپلز پارٹی اِس وقت مسلم لیگ نون کو تنقید کا ہدف بنارہی ہے، اِس کا جھکاؤ مسلم لیگ نون کی طرف قبل از انتخاب نظر نہیں آتا، کیونکہ پیپلز پارٹی ابھی سے وہ تمام تر الزامات مسلم لیگ نون کی قیادت پر لگانا شروع ہوگئی ہے جو کئی دہائیوں سے سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے پرلگاتی رہی ہیں خصوصاً ایسے الزامات لگاتے وقت توپوں کا رُخ اُس سیاسی جماعت کی طرف ہوتا ہے، جس کی جیت کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، لہٰذا الزامات کا یہ سلسلہ اُس حکومت کے اختتام پر ہی دم توڑتا ہے۔ ماضی میں دیکھا جائے تو ایسے الزامات انتخابی مہم میں بھی دھرائے جاتے ہیں جس سے ووٹر مایوس ہوتا ہے، پھر انتخابی عمل کو مشکوک بنایا جاتا ہے اور پھر منتخب حکومت کو بھی الیکٹڈ کی بجائے سلیکٹڈ کا لقب دے دیاجاتا ہے، یوں انتخابی عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے والے ادارے، ووٹرز سبھی کی محنت اور حق رائے دہی پر پانی پھر جاتا ہے۔ بہرکیف سیاسی جماعتیں اوپر نیچے یا دائیں بائیں دیکھنے کی بجائے اپنی کارکردگی کو دیکھیں اور اپنا مقدمہ عوام کی عدالت میں لائیں تو زیادہ بہتر ہے۔ اِس طرح ہم ایک طرف تو جمہوری عمل کے تابوت پر مزید کیل ٹھونکنے سے باز رہیں گے، دوسرا ووٹر ز بھی سیاسی اور انتخابی عمل سے مایوس نہیں ہوں گے۔ اب تو ترقی پذیر ممالک میں بھی کردار کشی اورالزام تراشی کو ترک کرکے اپنی کارکردگی اور منشور کی بنیاد پرانتخابی مہم چلائی جاتی ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک انتہائی باعزت طریقے سے اپنا موقف اور منشور سامنے رکھ کر ووٹ مانگتے ہیں مگر اِس کے برعکس ہمارے سیاست دان اپنے منشور اور کارکردگی کوایک طرف رکھ کرمخالفین پر ایسے ایسے معاملات کو بنیاد بناکر اُنگلیاں اُٹھاتے ہیں کہ سر شرم سے بھی جھک جاتا ہے اوراپنے ملک کے طرز سیاست پر بھی افسوس ہوتا ہے۔ جناب بلاول بھٹو نے اسمبلی کی مدت پوری ہونے سے قبل آخری خطاب میں میاں نوازشریف اورآصف علی زرداری کو متوجہ کرتے ہوئے موجودہ طرز سیاست کو بدلنے کی درخواست کی تھی تاکہ نئی نسل کو جیل اور کال کوٹھڑیوں اورجھوٹے مقدمات کے بغیرآسانی سے سیاست کرنے کا موقعہ مل سکے، مگر حالیہ دنوں میں جیسے الزامات کے تیر پیپلز پارٹی کے مورچے سے چلائے جارہے ہیں، یوں لگتا ہے کہ اِس بار بھی انتخابی عمل کو مشکوک اور جانبدار بنانے کی پوری کوشش کی جائے گی۔ پھر سیاست دانوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ جنگل میں بھی وہی جانور کسی کا نوالہ نہیں بنتے جو اپنے جھُنڈ میں رہتے ہیں اور جھُنڈ کے ساتھ چلتے ہیں، مگر جیسے ہی کوئی اپنے جھُنڈ سے علیحدہ ہوتا ہے وہ کسی کا نوالہ بن جاتا ہے۔ لہٰذا سیاست دان جھُنڈ میں رہیں اور امن و آشتی کے ساتھ رہیں اور ایک دوسرے کو برداشت کریں اسی میں عافیت ہے۔ ہم امید کرتے ہیں قبل از انتخاب اور انتخابی عمل کو مشکوک اور متنازعہ بنانے کی کوشش نہیں کی جائے گی اور سبھی اپنی سیاسی طاقت کے بل بوتے پر انتخابی میدان میں اُتریں گے۔

جواب دیں

Back to top button