برکس کی ٹرمپ کا نام لئے بغیر درآمدی ٹیرف، ایران پر اسرائیل-امریکا کے حملوں پر تنقید

برکس رہنماؤں کے سربراہی اجلاس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بلا امتیاز درآمدی محصولات (ٹیرف) اور ایران پر اسرائیل-امریکا کے حالیہ حملوں پر تنقید کی گئی ہے۔
فرانسیسی خب رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق 11 ابھرتے ہوئے ممالک میں شامل برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ میں دنیا کی تقریباً نصف آبادی رہائش پذیر ہے، اور یہ ممالک 40 فیصد عالمی اقتصادی پیداوار کے حامل ہیں۔
برکس گروپ کئی معاملات پر منقسم ہے، لیکن امریکی صدر کی غیر متوقع پالیسیوں اور ان کی ادھوری تجارتی جنگوں کے خلاف ایک نقطے پر متحد نظر آیا ہے، اگرچہ انہوں نے براہِ راست امریکی صدر کا نام لینے سے گریز کیا ہے۔
اجلاس کے مشترکہ بیان کے مطابق، برکس کے ارکان نے ’یکطرفہ محصولات کے اقدامات کے اضافے پر شدید تشویش‘ کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ عالمی معیشت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
ٹرمپ نے اتوار کی شب سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر براہِ راست برکس بلاک پر تنقید کرتے ہوئے لکھا تھا کہ جو ملک برکس کی امریکی مخالف پالیسیوں کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرے گا، اس پر اضافی 10 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ اس پالیسی میں کوئی استثنیٰ نہیں ہوگا۔
اس سے پہلے، برکس نے اپنے رکن ملک ایران کی علامتی حمایت کرتے ہوئے ان جوہری اور دیگر اہداف پر اسرائیل اور امریکا کی جانب سے کیے گئے فوجی حملوں کی مذمت کی۔
اپریل میں، ٹرمپ نے اتحادیوں اور مخالفین کو سخت محصولات کی دھمکی دی تھی، لیکن اسٹاک مارکیٹس میں زبردست مندی کے بعد عارضی ریلیف دے دیا تھا۔
ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ اگر شراکت دار ممالک یکم اگست تک معاہدے نہیں کرتے تو ان پر یکطرفہ محصولات عائد کیے جائیں گے۔
برازیل، بھارت اور سعودی عرب جیسے امریکی اتحادیوں کے ساتھ ممکنہ نرمی کے طور پر، سربراہی اجلاس کے اعلامیے میں امریکا یا اس کے صدر کا براہِ راست ذکر نہیں کیا گیا۔
چین کی قیادت میں طاقتور گروپ
دو دہائیاں قبل تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک کے فورم کے طور پر قائم ہونے والا برکس اب چین کی قیادت میں امریکا اور مغربی یورپ کی طاقت کا مقابلہ کرنے والا گروپ سمجھا جاتا ہے۔
لیکن جب سے اس گروپ میں ایران، سعودی عرب اور دیگر ممالک شامل ہوئے ہیں، یہ غزہ پر حملے سے لے کر امریکا کی عالمی بالا دستی کو چیلنج کرنے جیسے معاملات پر مؤثر اتفاق رائے حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔
مثال کے طور پر، برکس ممالک نے اسرائیل-فلسطین تنازع کے پرامن 2 ریاستی حل کی حمایت کی ، حالاں کہ ایران کا دیرینہ مؤقف ہے کہ اسرائیل کا وجود ختم ہونا چاہیے۔
ایک ایرانی سفارتی ذرائع کے مطابق، ان کے ملک کے تحفظات برازیلی میزبانوں تک پہنچا دیے گئے تھے، تاہم، ایران نے بیان کو مکمل طور پر مسترد کرنے سے گریز کیا۔
برازیلی حکومت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سفارتی نزاکتوں کی ایک اور علامت کے طور پر، سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے اتوار کے اجلاس میں شرکت ہی نہیں کی۔
سعودی عرب جدید امریکی فوجی ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار ہے، اور امریکا کا دیرینہ شراکت دار بھی ہے۔
اس سال کے اجلاس کی سیاسی اہمیت اس وقت کم ہو گئی جب چین کے صدر شی جن پنگ نے 12 سال میں پہلی بار اجلاس میں شرکت نہیں کی۔
چینی رہنما واحد غیر حاضر شخصیت نہیں تھے، روسی صدر ولادیمیر پیوٹن (جو یوکرین میں جنگی جرائم کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں) بھی ذاتی طور پر شریک نہیں ہوئے اور ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں حصہ لیا۔
انہوں نے ساتھی رہنماؤں سے کہا کہ برکس عالمی نظم و نسق میں ایک کلیدی کردار ادا کرنے والا کھلاڑی بن چکا ہے۔
اجلاس میں مصنوعی ذہانت کے حوالے سے ضابطہ اخلاق کی بھی اپیل کی گئی اور کہا گیا کہ یہ ٹیکنالوجی صرف امیر ممالک کی اجارہ داری نہیں ہونی چاہیے۔
فی الحال تجارتی مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے میدان پر امریکی ٹیکنالوجی کمپنیاں چھائی ہوئی ہیں، تاہم چین اور دیگر ممالک بھی تیزی سے اپنی صلاحیتیں بڑھا رہے ہیں۔