اسلامی احکام،پاکستانی سماجی رویے اور طلاق
ملیحہ سید
ریاستِ پاکستان کے سماج کا سب سے زیادہ بھیانک پہلو یہ ہے کہ یہاں طلاق جیسے اہم ترین موضوع اور اس سے جڑے اسلامی جواز، ضرورت اور حوالوں کو ہمیشہ نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے مردوں کی اکثریت حتیٰ کہ خواتین کی ایک کثیر تعداد بھی طلاق کو ناپسندیدہ ترین فعل سے جوڑتی ہیں اور طلاق لینے والی خواتین کی کردار کشی کو اپنا فرض سمجھا جاتا ہے۔ ایک مشہور ٹک ٹاکر علیزے سحر کے حوالے سے ایک پوسٹ لکھی تو اس پر اسی طرح کا ایک کمنٹ آیا،”مارننگ شو میں چار بار طلاق یافتہ نیو دلہن کو بتا رہی ہوتی ہیں گھر کیسے چلاتے ہیں۔تجربے کار لوک۔۔۔۔۔اور علیزے بھی 1بار طلاق لے چکی ہے۔“جو لکھنے والا”لوک اور لوگ“ میں فرق نہیں سمجھتے وہ بھی ایک عورت کے کردار کو جج کر رہے ہوتے ہیں۔
طلاق لینا کوئی خوشی کی بات نہیں ہوتی ہر طلاق کے پیچھے کوئی نہ کوئی ایسی کہانی ضرور ہوتی ہے جسے بعض اوقات خواتین اور خاندان چھپا لیتے ہیں، طلاق سے بڑی درد ناک داستانیں جڑی ہوتی ہیں مگر ہر بار طلاق یافتہ عورت کو ہی حرف تنقید بنایا جاتا ہے اور مرد کی ہسٹری پر آٹو ڈیلیٹ لگا کر پھر گھوڑی پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ایک طلاق یافتہ مرد سے وجہ پوچھیں تو عورت کاکردار پن کر رکھ دیتا ہے جبکہ عورت اور اس کا خاندان نگاہیں نیچے رکھ کر ایک ہی جملہ کہتے ہیں کہ ”نبھی نہیں۔“کوئی یہ کہانی نہیں سناتا کہ اس کے ساتھ کیسا جانوروں جیسا سلوک روا رکھا گیا اور کس کس طرح کے زہنی ٹارچر سے گزارا گیا۔ رشتے ٹارچر سیل کی سیڑھیاں چڑھنے کے لیے نہیں بنائے جاتے بلکہ رشتے خاص طور پر میاں بیوی کا رشتہ تو ایک نئے فیملی یونٹ کی بنیاد ہوتا ہے مگر جب اس میں جھوٹ، جنسی زہنی اور جسمانی تشدد آ جائے تو پھر دوزخ میں مزید جلنے سے بہتر طلاق کا راستہ ہے جو کہ مکمل طور پر شرعی راستہ ہے کو اختیار کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
ایک مرد تین عورتوں کو طلاق دے تو کوئی بات نہیں مگر ایک عورت تین چار بار کی طلاق یافتہ ہو جائے تو بدکردار شمار کی جاتی ہے کہ اس کی تو کسی کے ساتھ نبھی نہیں۔۔ اور وجہ یہی کہ ”یاراں پٹی“ ہے۔ اور یوں ہر طلاق کے پس منظر میں ایسی ہی کہانی دہرائی جاتی ہے۔“مگر جب اپنے گھر کی بہن بیٹی کے ساتھ یہ ایشو ہو تو پھر بہن بیٹی کا شوہر اور سسرال والے ہی کرپٹ تھے۔ یعنی جب خود پر نہیں آتی تو دوسرے کی بہن بیٹی کوئی سیلبریٹی عورت بری ہی رہتی ہے اور جب اپنے گھر کی باری آتی ہے تو اپنی بہن بیٹی مظلوم۔
اب جہاں تک بات ہے اسلام کی تو اس ایشو پر میری جتنے بھی عالم حضرات سے بات ہوئی ہے، انہوں نے اس سوچ کی نفی کی ہے اور واضح رہے کہ میں نے لفظ ”عالم دین“ لکھا ہے اس سے مراد پانچویں پاس اور اکیسویں صدی میں رہنے کے باوجود عورت کے معاملے میں ذہنی طور پر متصب برہمنی سوچ افکار کا حامل مولوی نہیں۔ اسلام انسانی زندگی کے بارے میں بہت زیادہ فراخدلانہ سوچ کا حامل ہے اور یہ طبقہ جس طرح اسلام کی تشریح کرتا ہے اس کا حساب تو فرشتے لے ہی لیں گے مگر ہم پر واجب ہے کہ ہم کم از کم ان حوالوں سے قرآن مجید کو خود پڑھنے کی عادت اپنائیں جن کا تعلق ہماری روزمرہ زندگی سے ہے، بلکہ کوشش کریں کہ روز کا ایک صفحہ ترجمہ اور تفسیر سے ضرور پڑھیں۔طلاق کے بارے میں اسلام کی حساسیت صرف اسی لیے ہے تاکہ حتی الامکان ازدواجی زندگی کو ایک دوسرے کے تعاون سے بہتر انداز میں چلانے کی کوشش کی جائے کیونکہ میاں بیوی کے درمیان اختلاف پیدا کرنا اور اس کی وجہ سے خاندانی نظام درہم برہم کر دینا شیطان کا محبوب مشغلہ ہے۔
نکاح ایک معاہدہ ہے، جس کا مقصد زوجین کا پیار و محبت کے ساتھ معاشرتی نظام کو جاری رکھنا ہے۔جب کوئی شخص نکاح کرتا ہے تو وہ اس بات کا عہد کرتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں شامل ہونے والی خاتون کا نان ونفقہ،رہنے سہنے کا بندوبست کریگا اور اس کے تمام حقوق زوجیت کو ادا کرے گا۔ اسی طرح خاتون کی جانب سے بھی یہ عہد ہوتا ہے کہ وہ اپنے شوہر کو خوش رکھے گی۔اسے ذہنی و جسمانی سکون بخشے گی، شوہرکی غیر موجودگی میں اس کے مال و اسباب کے ساتھ ساتھ اپنی عزت و آبروکی حفاظت کرے گی جو شوہر کی امانت ہے۔
اب اس معاہدے میں کسی کی جانب سے کمی یا کوتاہی ہوئی تو سب سے پہلے دیکھا جائے گا کہ یہ غلطی کس درجہ کی ہے، پھر اسے دور کرنے کی حتی الامکان کوشش کی جائے گی اور فریقین کو سمجھانے بجھانے کے لیے دونوں جانب سے لوگ تیار کیے جائیں گے جو انہیں شوہر کی اہمیت اور بیوی کی ضرورت پر گفت و شنید سے مسئلہ کو حل کرنے کی شکل نکالیں گے، اس کا ہر طرح سے علاج کرکے اسے درست کرنے کی کوشش کریں گے۔
اس کے باوجود اگر کوئی صورت نہ بنے اور دونوں کی زندگی تلخ سے تلخ تر ہوجائے اورگھر جہنم کی تصویر بن جائے اور اس بات کا خوف ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو اس آخری مرحلے میں اسلام نے اس معاہدہ کو توڑنے کی اجازت دی ہے۔ طلاق سنجیدہ عمل ہے اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
”طلاق دو بار ہے، پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کر دیا جائے اور رخصت کرتے ہوئے ایسا کرنا تمہارے لیے جائز نہیں کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو، اس میں سے کچھ واپس لے لو، البتہ یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ زَوجین کو اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا اندیشہ ہو،ایسی صورت میں اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں حدودِ الٰہی پر قائم نہ رہیں گے، تو ان دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہو جانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ معاوضہ دیکر علیحدگی حاصل کر لے،یہ اللہ کی مقررکر دہ حدود ہیں، ان سے تجاوز نہ کرو، اور جو لوگ حدودِ الٰہی سے تجاوز کریں، وہی ظالم ہیں۔“(البقرۃ229)۔
طلاق کا طریقہ بھی مبنی بر حکمت ہے۔شوہر اس طہر کی حالت میں، جس میں اس نے بیوی سے جماع نہ کیا ہو،طلاق دے۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ مردکو غور خوض کرنے یا عورت کو بھی سنبھلنے کا موقع مل جاتا ہے۔اس درمیان وہ رجعت(طلاق سے رجوع کرکے) اسے رکھ سکتا ہے جبکہ ایک ساتھ 3 طلاق دینے کی صورت میں یہ اختیار بھی ختم ہوجاتاہے اسی لیے عہد رسالتؐ میں اسے بہت معیوب اور شریعت کے ساتھ کھیل جیسا عمل قرار دیا جاتا تھاجبکہ عہد فاروقی میں اس عمل پر کوڑے مارے جاتے تھے مگر 3 طلاق واقع ہوجایا کرتی تھی۔یہاں میں ایک ساتھ تین طلاق کا ذکر نہیں کر رہی کہ یہ اس حوالے سے مختلف آراء ہیں مختلف مسالک کی۔
بنیادی طور یہ لکھنے کا میرا مقصد صرف اتنا ہے کہ طلاق لینے اور دینے کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے بعض اوقات مرد زمہ دار ہوتا ہے تو وہیں عورت بھی زمہ داروں میں آتی ہے حتیٰ کہ دونوں طرف کی فیملیز کے رویے اور فرمائشیں بھی طلاق کے محرکات میں شامل ہیں۔ سماج بھی اس کا حصہ دار ہے مگر گالی صرف عورت کو دی جاتی ہے، انگلی صرف عورت کے کردار پر اٹھائی جاتی ہے کیونکہ مار کٹائی، ذہنی، جسمانی اور جنسی تشدد برداشت کرنے والی عورتیں نیکو کار اور اس کا انکار کرنے والیاں بدکردار۔ اپنی اصلاح کیجئے یہ آپ کے لیے بہت زیادہ ضروری ہے کیونکہ یہ وہ وقت ہے جو کبھی بھی کسی پر بھی آ سکتا ہے۔