اس طرح توالیکشن کے نتائج تسلیم نہیں کئے جائیں گے

تحسین بخاری
ایک طرف الیکشن کی تاریخ مقررہوجانے کے باوجودغیریقینی کی صورتحال بدستورقائم ہے تو دوسری طرف تمام ترحربے اختیارکیے جانے کے باوجوداڈیالہ جیل کا قیدی نمبر943 اب تک سب کے لیے خوف کی علامت بنا ہواہے۔ملکی تاریخ کا بدترین کریک ڈاؤن۔200سے زیادہ مقدمات۔دس ہزار سے زیادہ کارکنان کی گرفتاری۔تمام سینئرقیادت جیل میں۔متعدد راہنماؤں کوپارٹی چھڑواکرنئی پارٹی کاقیام۔پارٹی ناچھوڑنے پرتمام ترکاروبارسیل۔عورتوں کی بدترین تذلیل کے باوجودبھی من پسند نتائج برآمد ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔شاید دنیاکی تاریخ میں ایسا پہلی بارہورہاہے کہ ہرلحاظ سے آزاد۔ہرطرح سے طاقتور۔مکمل طورپربااختیارلوگ ایک ایسے شخص سے خوف زدہ ہیں جوخودانہی کی قیدمیں ہے۔انہی کے رحم وکرم پرہے۔اب الیکشن کا اعلان بھی کربیٹھے ہیں اورپریشان بھی ہیں کہ کیاکیاجائے۔یہ نوے کی دہائی تو ہے نہیں کہ ایک نیوز چینل سے اپنی مرضی کے امیدوارکی جیت کااعلان کروادیاجائے گا۔
ناہی مشرف دورہے کہ ریفرنڈم کی طرح800 ووٹ رکھنے والے پولنگ سے 1200ووٹوں کی کاسٹنگ کروالی جائے گی توکوئی حرج نہیں۔یہ جدیددورہے نئی نسل سوشل میڈیاجیسے خطرناک ہتھیار سے لیس ہے، جوایک سیکنڈمیں دھاندلی کوبے نقاب کرکے رکھ دیں گے۔ اس لیے دھاندلی شاندلی کے بھی وہ امکانات نظرنہیں آرہے۔نئی پارٹی بھی لانچ توکردی گئی مگرمسئلہ یہ ہے کہ ووٹرکہاں سے لائے جائیں۔عوام ہے کہ اس قیدی سے عشق کربیٹھی ہے۔عوام کا عمران خان سے متعلق نظریہ تبدیل کرنے کے لیے اس پرہرطرح کے الزامات لگاکربھی دیکھ لیاگیا۔اس کی جعلی آڈیو ریکارڈنگ کاتجربہ بھی انڈیاکے اکثرمیزائلوں کی طرح بری طرح ناکام ہوگیا۔ہرتجربے کے بعدعوام کے دل میں اس کی محبت اوربڑھ جاتی ہے۔
عوام کو عمران خان سے دورکرکے ان کے دلوں میں اپناگھر بنانے کاایک ہی طریقہ تھااوروہ تھا بہتر کارکردگی۔اور کارکردگی یہ ہے کہ 16ماہ میں عوام کاانہوں نے بھرکس نکال کے رکھ دیا۔عوام پرمعاشی اورجسمانی طورپر ظلم کیاگیاجس کی وجہ سے عوام کو پی ڈی ایم سے شدیدنفرت ہوگئی، اورنفرت کا یہ عالم ہے کہ پی ڈی ایم کاکوئی بھی سیاسی رہنما سوشل میڈیاپراپنی سیاسی سرگرمی دکھانے کی کوشش کرتاہے توپی ٹی آئی کے ورکرایک دم اس پرٹوٹ پڑتے ہیں۔پی ٹی آئی کو الیکشن مہم سے روکنے کے حربے کوبھی پی ٹی آئی ورکروں نے یہ کہہ کرناکام بنادیاہے کہ دوسری جماعت ووٹ مانگنے کی زحمت نہ کرے اور پی ٹی آئی کے امیدوارکو ووٹ مانگنے کے لیے کہیں جانے کی ضرورت نہیں، انشااللہ وہ گھربیٹھارہے اورالیکشن کے دن پولنگ پرجاکراپنا رزلٹ لے لے۔
عوام کاکہنا ہے کہ نواز شریف اور آصف زرداری کی کرپشن سب کے سامنے ہے ان کی درجنوں فیکٹریاں،بیرون ممالک انڈسٹری،لندن میں اربوں کھربوں کے فلیٹ دبئی میں بہت بڑے شاپنگ مال چیخ چیخ کرکرپشن کی داستان سنا رہے ہیں۔اور یہ سب جائیدادیں انہوں نے اقتدارمیں آنے کے بعدبنائیں اس سے پہلے ان کے پاس کچھ نہ تھا، یہ کھربوں کی جائیدادملکی خزانے کو لوٹ کربنائی گئیں۔جبکہ عمران خان نے اگرکرپشن کی ہے توپھروہ کہاں ہے۔اس کے پاس جواقتدارسے پہلے تھا آج بھی وہی ہے۔ وہ آدمی کیا کرپشن کرے گاجوکہتاہے کہ میرے پاس جو کچھ بھی ہے میرے بعد یہ شوکت خانم ہسپتال کودیاجائے۔ بیرون ممالک تودورکی بات اس نے پاکستان میں بھی کچھ نہیں بنایا۔ اس نے اگرکوئی فیکٹری لگائی ہے،کوئی محل بنایاہے۔لندن دبئی یاامریکہ میں کوئی فلیٹ خریداہے توبتاؤ۔خواہ مخواہ کی الزام تراشی پرتوہم کپتان کواپنے دلوں سے جدانہیں کریں گے۔
توشہ خانہ کی گھڑی کے الزام کو عوام ایک لطیفے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتی۔عوام کا کہنا ہے کہ اگرکوئی چیز خریدی جاتی ہے تووہ خریدارکی زاتی ملکیت بن جاتی ہے زاتی ملکیت کوکوئی بیچے یاگھر رکھے یہ اس کی صوابدیدہے۔ جنھوں نے توشہ خانہ کے سینکڑوں تحائف اپنی من مرضی کی قیمتوں پراونے پونے خریدے اور پھر سینکڑوں گھڑیوں، گاڑیوں اور دیگرتحائف کا کچھ پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہیں ان سے توکوئی حساب نہیں مانگاجاتا۔ دراصل عوام کوعمران خان سے قریب تر کرنے میں پی ڈی ایم کو 16ماہ میں سرتوڑکوشش کرناپڑی ہے۔ان16مہینوں کاعام آدمی کو عمران خان سے قریب کرنے بڑااہم کردارہے۔ عمران خان کے دورحکومت میں عوامی ہمدردی کاڈھونگ رچاکرقیمتوں میں اضافے پرآسمان سرپراٹھائے رکھااورجب اقتدار سنبھالاتوعوامی ہمدردی کاماسک ان کے چہرے سے پہلے روزہی اترگیا۔ قیمتوں میں اضافے کی رفتارکا یہ عالم تھاکہ عوام کے ہوش اڑگئے، عمران خان کے چارسالہ دورکی منہگائی سے کئی گنا زیادہ منہگائی صرف 16ماہ میں کرڈالی اگران کو پانچ سال مل گئے توغریب کوزندہ درگورکرکے رکھ دیں گے، لہٰذاعوام نے محسوس کیاکہ عمران خان کے دورمیں صرف عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے مہنگائی کارونا رویاجاتاتھااگرانہیں واقعی عوام کادرد ہوتا تو پھرعمران خان کے دورکی قیمتوں کو کم کرتے توعوام ان کے ساتھ اس ہمدردی کی بنیادپرکھڑی ہوجاتی اگرقیمتیں کم نہ بھی کرسکتے تو کم ازکم ان قیمتوں کوبرقراربھی رکھ پاتے توبڑی بات تھی مگر انہوں نے تواقتدار سنبھالتے ہی عوام کو بدترین منہگائی کے عذاب میں مبتلاکرکے پتہ نہیں کس کے ساتھ کئے گئے کسی عہدکی تکمیل کی۔
پی ڈی ایم کے اس 16ماہ کے کھیل میں سب سے زیادہ خسارہ پیپلزپارٹی کواٹھاناپڑا۔ پی پی اگر اس عوام دشمن 16ماہ کے پروگرام کا حصہ نہ بنتی تو شایدآج وزارت عظمیٰ کی کرسی پر اس کے نام کی چٹ لگی ہوتی مگراب اس کرسی پرکسی اور نام کی چٹ وقتی طورپر تو لگادی گئی ہے اگر الیکشن صاف شفاف ہوئے توپھر یہ چٹ بھی ہٹانی پڑسکتی ہے۔ بلاول نے بھی عوامی ہمدردی کا خوب ڈھونگ رچایا۔ کنٹینرلیکرمہنگائی ختم کرانے اور الیکشن کروانے کے لیے بے تابی سے نکل پڑا، لانگ مارچ کیا اور مارچ کانام بھی مہنگائی مکاؤ مارچ رکھ دیا۔ اس مارچ کا بیانیہ یہ بنایاگیاتھاکہ ایک تو مہنگائی بہت زیادہ ہے، ہم مہنگائی کے خاتمے کے لیے نکلے ہیں دوسرافوری طور پر الیکشن کروائے جائیں۔ بلاول کی جذباتی گفتگوسن کرایسا لگتاتھا جیسے غریب آدمی کی خاطریہ اس قدر پریشان ہے کہ اس کی نیندیں اڑچکی ہیں پتہ نہیں غریب کی ہمدردی میں یہ کچھ کھاتاپیتابھی ہے کہ نہیں مگرجب اسے اقتدارملاتواس نے اپنے بیانیے کی گردن پرخودہی چھری پھیردی، اورپہلے پندرہ دنوں میں ہی مارچ کا ایجنڈا بے نقاب ہوگیا۔ اورجس نے مہنگائی کوکم کرناتھا اس نے مہنگائی میں خطرناک حدتک اضافہ کرڈالا اوردوسراالیکشن کے مطالبے سے بھی ایک دم پیچھے ہٹ گیا۔ عوام سمجھتی ہے کہ اقتدارکے لیے عوامی ہمدردی کاڈھونگ رچایاجاتاہے اور اقتدار حاصل کرنے کے بعدعوام پرِظلم کیاجاتاہے۔ نون لیگ سے توعوام کے دلوں میں نفرت تھی ہی، پیپلزپارٹی نے اس کے ساتھ مل کرخودکو عوام سے کوسوں دورکرلیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلاکہ پیپلزپارٹی عوامی حمایت سے بھی محروم ہوگئی اور نون لیگ نے بھی اس سے ہاتھ کردیا۔کیونکہ وزارت عظمیٰ کے لیے بڑے گھرسے جو اشارہ ملاتھا وہ زرداری کو ہی ملاتھااور زرداری نے باقاعدہ اس کرسی کو ٹاکی شاکی بھی مارنا شروع کردی تھی پھر اچانک بڑے گھرکااشارہ تبدیل ہوا توزردای ہڑبڑاگیا۔ تاہم زرداری اب بھی پرامیدہے کہ وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بلاول بیٹھے گامگرایسالگتانہیں۔کیونکہ کچھ ایجنڈوں کی تکمیل ہونی ہے اوروہ تکمیل میاں صاحب سے ہونی ہے۔بڑے گھرکی منصوبہ بندی تویہی ہے اگرقیدی نمبر943 نے بیلٹ بکس پرگیم پلٹ دی توپھریہ سب منصوبے۔ سارے عہدو پیماں خاک میں مل سکتے ہیں۔پاکستان کی سیاست ایک دلچسپ کھیل ہے کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتاہے۔ تاہم زاتی پسند ناپسندکے تجربات پہلے بھی بہت ہوچکے ہیں ان تجربات نے ملک کانقصان توکیا ہے فائدہ نہیں۔ ملک سلامت توہم سب سلامت۔ ہم نے بنگلہ دیش گنواکربھی سبق نہیں سیکھا۔ ملک کی بہتری اسی میں ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو اپنا سیاسی مقدمہ عوامی کی عدالت میں لڑنے دینا چاہیے عوام جو فیصلہ کرے اس فیصلے کوقبول کیاجائے۔ تمام جماعتوں کوالیکشن مہم چلانے کاحق دیاجائے۔ ورنہ بہتر ہے کہ الیکشن کروائے ہی نہ جائیں کیونکہ ایک جماعت کے ہاتھ باندھ کر کروائے جانیوالے الیکشن کے نتائج کوناصرف عوام بلکہ دنیابھی تسلیم نہیں کرے گی۔