اسلامی تعاون تنظیم اور عرب لیگ اجلاس کا مشترکہ اعلامیہ

عرب اور اسلامی ممالک کے سربراہان نے اسرائیل کے حق دفاع کے دعوے اور استدلال کو مسترد کر تے ہوئے فوری جنگ بندی اور امدادی کارروائیاں شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ عرب اسلامی مشترکہ سمٹ سربراہ کانفرنس کے اختتامی اعلامیہ میں غزہ کے اندر جاری اسرائیلی جنگ اور بمباری کو فوری روکنے کے لیے اقدامات پر زور دیا گیا ہے۔ عرب ملکوں اور اسلامی ممالک کے سربراہان کی مشترکہ سربراہی کانفرنس سعودی عرب میں میزبانی میں ہفتے کے روز منعقد کی گئی۔ اعلامیے میں غزہ کا محاصرہ ختم کرنے، علاقے میں انسانی امداد کی اجازت دینے اور اسرائیل کے ہتھیاروں کی برآمدات روکنے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ مسلم وعرب دنیا کے سبھی سربراہان نے دوٹوک اور متفقہ انداز میں غزہ پر اسرائیل کی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پر مبنی جنگ کو مسترد کر دیا اور کہاکہ اسرائیل کے فلسطینیوں کے خلاف حق دفاع کا دعویٰ کوئی جواز نہیں رکھتا۔ اعلامیہ میں غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی بھی مذمت کرتے ہوئے اسرائیلی جارحیت کو جنگی جرم قرار دیا ہے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ انسانی بحران کے خاتمے میں عالمی برادری ناکام ہو چکی ہے۔ غزہ میں نہتے شہریوں پر حملوں کو مسترد کرتے ہیں۔ فلسطینی عوام پر ظلم اور زیادتی کی ذمہ دار قابض افواج ہے۔ نگران وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے اپنے خطاب میں اسرائیل کی ظالمانہ کارروائیوں اور غزہ کے غیر انسانی و غیر قانونی محاصرے کو غزہ میں نہتے فلسطینیوں کی شہادتوں، بڑے پیمانے پر تباہی اور نقل مقانی کا ذمہ دار قرار دیا اورکہا کہ اسرائیلی افواج فلسطین میں بین الاقوامی انسانی قوانین اور انسانی حقوق کے قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہی ہیں۔ اسرائیلی افواج کا مسلسل اور بلاتفریق نہتے فلسطینیوں پر طاقت کا استعمال جنگی جرم اور انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ عالمی برادری اسرائیل کے جنگی جرائم کے لیے اس کا محاسبہ کرے، اسرائیل کے مظالم اور ریاستی دہشت گردی کی اس مہم کو فوری طور پر روکا جائے۔ بلاشبہ وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کا اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے ہنگامی اجلاس کے لیے سعودی عرب کا حالیہ دورہ جاری نازک مسائل سے نمٹنے کے لیے علاقائی تعاون کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ اسرائیل،فلسطین تنازعہ میں تناؤ بڑھنے کے ساتھ ہی،او آئی سی سربراہی اجلاس کا مقصد غزہ پر آئندہ اسرائیلی حملوں سے نمٹنے کے لیے ہے، جو شہری آبادیوں کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے اور انسانی بحران کو بڑھا رہا ہے۔ لہٰذا اجتماعی کوششوں کے ذریعے عالمی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پاکستان کا عزم او آئی سی سربراہی اجلاس میں اس کی فعال شرکت سے عیاں ہے اور جاری اسرائیلی جارحیت نے جامع حمایت اور مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیا ہے، کیونکہ پاکستان، فلسطینی عوام کے خلاف ہونے والے گھناؤنے جرائم پر گہری تشویش رکھتا ہے، اور اس کا مقصد تنازع کے فوری حل کے لیے کوششوں کو تیز کرنا ہے۔پاکستان کی طرف سے ضروری وسائل اور حفاظتی انتظامات سمیت جامع حمایت کی یقین دہانی جمہوری عمل کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کے عزم کی عکاسی کرتی ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو غزہ کی صورتحال پر عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم کا مشتر کہ غیر معمولی سر براہی اجلاس اسرائیلی جارحیت پر مسلم ممالک کا مشترکہ موقف واضح کرنے کے لیے منعقد کیا گیا اور اِس کا مقصد اقوام بالخصوص اسرائیل کو بربریت کا مظاہرہ کرنے پر آشیرواد دینے اور عالمی امن کے نام نہاد ٹھیکیداروں کو یہ دکھانا ہے کہ مسلم اُمہ فلسطین کی موجودہ صورت حال پر شدید اضطراب میں مبتلا ہے، اور اگر اب بھی اسرائیل کی ناجائز پشت پناہی جاری رکھی گئی تو دنیا بھر کے مسلمان ممالک فلسطین کے لیے وہ سب کچھ کرگزرنے میں حق بجانب ہوں گے جن کا کانفرنس کے اعلامیہ میں ذکر کیاگیا ہے۔ مسلم ممالک کے حکمرانوں کا یہ اجلاس ایسے وقت میں بلایا گیا جب غزہ پر اسرائیلی حملوں کو ایک ماہ سے زائد وقت ہو چکا ہے اور اس جنگ میں اسرائیل کی بربریت سے لگ بھگ بارہ ہزار نہتے مظلوم فلسطینی شہری موت کے منہ میں جاچکے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اسرائیل تو فلسطین کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہے اور بعض ممالک اِس کا ساتھ دے کرجنگی جرائم کا نہ صرف حصہ بن رہے ہیں بلکہ عالمی اداروں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرکے اُن کا وقار بھی تباہ کررہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اُمت مسلمہ کو دہائیوں پرانے اپنے مسائل کے حل کے لیے ازخود آگے بڑھنا چاہیے بلکہ عرب ممالک بالخصوص اسلامی تعاون تنظیم کو اپنا لوہا منوانا چاہیے، کیونکہ مسلمانوں کی صلح پسندی اور بعض معاملات میں مصلحت روی نے اُمہ کو بہت نقصان پہنچایا ہے مگر اب ہمیں مزید نقصان کا متحمل نہیں ہونا چاہیے یہی عزم ہر مسلمان ملک اور اُمت مسلمہ کے حق میں بہتر ہے۔