بین الاقوامی

عالمی پابندیاں برقرار رہیں تو جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے سے نکل جائیں گے، ایران

ایران نے خبردار کیا ہے کہ اگر 2015 کے جوہری معاہدے پر دستخط کرنے والے یورپی فریقین اقوامِ متحدہ کی پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کی کوششیں جاری رکھتے ہیں، تو وہ قانونی طور پر جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) سے علیحدگی اختیار کر سکتا ہے۔

ایرانی خبر رساں ادارے ’ارنا‘ کی رپورٹ کے مطابق اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کو لکھے گئے خط میں اقوامِ متحدہ میں ایران کے سفیر اور مستقل نمائندے سعید ایروانی نے ایران کی گزشتہ وارننگز کو دہرایا، جن میں کہا گیا تھا کہ وہ ’مناسب جوابی اقدامات‘ کرے گا، جن میں معاہدے کے آرٹیکل دس کے مطابق این پی ٹی سے علیحدگی کا عمل شروع کرنا بھی شامل ہے۔

یہ انتباہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ’ای 3‘ کہلائے جانے والے یورپی ممالک برطانیہ، فرانس، اور جرمنی، امریکا کے ساتھ مل کر عالمی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے بورڈ آف گورنرز میں ایران کے خلاف ایک قرارداد پر ووٹنگ کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔

یہ ووٹنگ ابتدائی طور پر بدھ کو ہونا تھی مگر سفارتی ذرائع کے مطابق وقت کی کمی کے باعث اسے جمعرات تک مؤخر کر دیا گیا ہے۔

حالیہ ’آئی اے ای اے‘ رپورٹ پر مبنی یہ قرارداد ایران پر الزام عائد کرتی ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے ساتھ مبینہ ’غیر اعلانیہ جوہری سرگرمیوں‘ کے بارے میں تعاون کرنے میں ناکام رہا ہے۔

اگر یہ قرارداد منظور ہو جاتی ہے تو یہ جے سی پی او اے کے تحت ختم کی گئی اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کے دوبارہ نفاذ کی راہ ہموار کر سکتی ہے، جو اکتوبر میں اس وقت ممکن ہوگا، جب سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کی اہم شقیں ختم ہو رہی ہیں۔

ایرانی حکام نے آئی ای اے ای کی رپورٹ کو ’سیاسی مقاصد کے لیے تیار کردہ‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ رپورٹ دشمن ذرائع، بشمول اسرائیلی حکومت سے حاصل شدہ انٹیلی جنس پر مبنی ہے۔

انہوں نے ’ای 3‘ پر الزام لگایا ہے کہ وہ جے سی پی او اے میں موجود اسنیپ بیک میکانزم کو (جو ایران کی عدم تعمیل کی صورت میں اقوامِ متحدہ کی پابندیاں خود بخود بحال کر دیتا ہے) ایک دباؤ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، تاکہ ایران پر اُس وقت دباؤ ڈالا جائے جب وہ امریکا کے ساتھ ایک ممکنہ متبادل معاہدے پر بات چیت کر رہا ہے۔

یاد رہے کہ امریکا 2018 میں اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر الگ ہو گیا تھا۔

جواب دیں

Back to top button