ایڈیٹوریل

پانچ فیصد اشرافیہ 72فیصد دولت کے مالک کیسے بن گئے؟

ریاست پاکستان کی بائیس فیصد دولت کا مالک صرف ایک فیصد امیر طبقہ ہے۔ ریاست کی پچاس فیصد دولت چار فیصد امراء کے پاس ہے باقی چالیس فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے رہتی ہے، لہٰذا یہ ایک فیصد اور چار فیصد والے امرا ء پوری قوم کی تقدیر مالک ہیں مگر تمام تر کوششوں کے باوجود ان امیر افراد کو مکمل طور پر ٹیکس نیٹ میں نہیں لایا جاسکااور اِس مقصد کے لیے ایف بی آر کی قائم کردہ اینٹی بے نامی انیشی ایٹو اور ایڈجوڈیکیٹنگ اتھارٹی مفلوج ہوگئی ہے، کیونکہ یہ تمام لوگ جو اربوں روپے کے غیر واضح اثاثوں کے مالک ہیں، انہوں نے بڑی چالاکی سے اپنی دولت اور اثاثے دوسروں کے نام چھوڑ ے ہوئے ہیں۔ مگر تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بائیس خاندان تو ایوب خان کے دور حکومت میں تھے اور اب بائیس نہیں بلکہ اکتیس خاندان ملک کی بائیس فیصد سے زیادہ دولت کے مالک ہیں اسی طرح جن چار فیصد امرا کے پاس ملک کی نصف دولت تھی، ان کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی بہتر فیصد دولت صرف پانچ فیصد افراد یا خاندانوں کے پاس ہے اور یہی پانچ فیصد افراد ملک و قوم کی تقدیر اور سیاہ و سفید کے مالک ہیں باقی ساری عوام بھیڑ بکریوں جیسی زندگی گزار رہی ہے اور انہی کے فیصلے سیاستدانوں اور عوام کی زندگی پر مثبت اور منفی اثرات مرتب کرتے ہیں، لہٰذا وطن عزیز انہیں پانچ فیصد افراد کی ”کلب“ یا ”ملک“ ہے، بلکہ یہ کہنا قطعی بے جا نہ ہوگا کہ یہی لوگ پاکستان کے مالک ہیں۔ ہر حکومت معاشی پالیسیاں بناتے وقت انہی کے مفادات کو مقدم رکھتی ہے کیونکہ یہ طاقت ور خاندان کسی بھی حکومت کو گھر بھیجنے کی طاقت رکھتے ہیں، لہٰذا حکومت اور سرکاری ادارے تمام تر مالی بوجھ عوام پر منتقل کر کے کسی نئی قانون سازی میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے، کیونکہ آج یہ امرا ء اتنے طاقت ورہوچکے ہیں کہ ان پر ہاتھ ڈالنا یا انہیں ٹیکس نیٹ میں لانا، ایف بی آر تو دور کسی حکومت کے بس میں بھی نہیں رہا، پس ملک کے چوبیس کروڑ عوام انہی پانچ فیصد امراء کی دولت میں اضافہ کرنے کے لیے دن رات محنت مزدوری کرتے ہیں اور پھر بڑے اہتمام کے ساتھ اپنے خون پسینے کی کمائی اِن خاندانوں کو پیش کردیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف کے بار بار توجہ دلانے کے باوجود اِن خاندان اور اِن کی دولت پر ہاتھ نہیں ڈالا جاسکا اور شاید کبھی ہاتھ ڈالا بھی نہ جاسکے کیونکہ یہ پانچ فیصد جو چاہتے ہیں وہی آج تک ہوتا آیا ہے، اسی لیے پورے ملک کی دولت اِن کی جھولی میں ہے اور عوام بیچارے اِن کی دولت میں اضافے کے لیے ٹیکس اور گرانی کی صورت میں ہر جبر برداشت کرتے چلے آرہے ہیں، حالیہ دنوں میں آئی ایم ایف نے ایک بار پھر ایف بی آر کو آڑے ہاتھوں لیا ہوا ہے، مگر ایف بی آر کیا کرے،جو خود اشرافیہ پر ہاتھ ڈالنے کی بجائے اُن کے مفادات کا ضامن ہے۔ چند ماہ قبل آئی ایم ایف کی نمائندہ نے واضح طور پر پی ڈی ایم کی حکومت سے کہا تھا کہ غربت کی لکیر سے نیچے پاکستانیوں کو ریلیف دیا جائے اور ٹیکس نیٹ کو وسعت دی جائے، مگر اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پٹرول سوا تین سو روپے لیٹر کردیاگیا اور بجلی و گیس دونوں ہی مہنگے کرکے عوام پر بوجھ منتقل کردیاگیا، جناب اسحق ڈار نے زیادہ آمدن والے اداروں پر لگژری ٹیکس عائد کیا نتیجے میں زیادہ آمدن والوں نے اِس ٹیکس کا سارا بوجھ عام پاکستانی پر منتقل کردیاگیا، ایک ماچس سے لیکر استعمال کی ہر چیز کی قیمت دُگنا کردی گئی، ایسا کئی دہائیوں سے ہوتا چلا آرہا ہے چونکہ ملک میں ”جس کی لاٹھی اُسی کی بھینس“ کاقانون نظر آتا ہے اسی لیے کوئی دوسرے کے مفاد پر ہاتھ نہیں ڈالتا کیونکہ ہاتھ ڈالنے والے کو بھی اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے۔ زیادہ دور نہیں جنرل مشرف کے زمانے میں آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے کئی ہزار ارب روپے کا ناجائز منافع کمایا جس کا انکشاف سابق قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس بھگوان داس نے اپنی غیر معمولی رپورٹ میں کیا تھا مگر حکومت ِ وقت نے مصلحت کے تحت اِن کمپنیوں کے مالکان پر ہاتھ ڈالنے سے گریز کیا نتیجے میں عوام کا لوٹا ہوا پیسہ سیدھا اِنہی کی جیبوں میں گیا حکومت کے پلے ایک پائی بھی نہ پڑی۔ یہی وہ طبقہ ہے جس کو ہر حکومت ٹیکس ایمنسٹی کے نام پر لوٹ مار کا پیسہ ”حلال“کرنے کا بار بار موقعہ دیتی ہے، شاید حکومت خود ٹیکس ایمنسٹی دیتی ہے یا پھر وہ طاقت ور خاندان حکم کرتے ہیں۔ بہرکیف جب حکومتیں اور ادارے ان پانچ فیصد خاندانوں کے سامنے بے بس ہیں تو عوام بے چاری خودکشیاں کرنے پر مجبور نہ ہو تو اور پھر کیا کرے، لہٰذا جو کچھ کئی دہائیوں سے چلتا آرہا ہے، مستقبل میں بھی چلتا رہے گا کیونکہ یہ اشرافیہ سب سے تگڑے ہیں جبکہ حکومتیں، ادارے اور عوام بے چار ان کے محکوم نہیں تو اور کیا ہیں۔

جواب دیں

Back to top button