پھر وہی کھیل

احمد خان
انتخابات کے ابال کے ساتھ ہی سیاسی جماعتوں کی اُمنگ اور ترنگ بھی اپنا اپنا رنگ جما نے لگی ہے، اگر چہ سیاست میں سرگرم سیاسی جماعتیں ایک طویل عرصہ سے اپنی سیا سی شعبدہ بازیاں دکھلا رہی ہیں، لیکن ہماری سیاسی جماعتوں کی قیادت کی سوچ میں وقت کے ساتھ کو ئی تبدیلی نہیں آئی، بلکہ اسی پرانی ڈگر پر کم وپیش ہر سیاسی جماعت چل رہی ہے، گزرے ماہ و سال میں بھی ہماری بڑی سیاسی جماعتیں اپنی مخالف سیاسی جماعتوں کی تابڑ تو ڑ کلاس لے کر انتخابات میں جیتنے کی سعی کرتی رہیں، حالیہ انتخابات میں بھی سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت اور ان کے امید وار اپنے سیاسی مخالفین پر ”تین حرف“ بھیج کر عوام کو ہم نوا بنا نے اور اپنی جیت کو یقینی بنا نے کے لیے سر گرم ہیں، کو ئی سیاسی جماعت اپنے چند کا رنا موں کو ”میک اپ“ کر تی نظر آرہی ہے تو کو ئی سیاسی جماعت اپنی سیاسی مخالف جماعتوں کو رگید نے میں جتی ہو ئی ہے جس طر ح سے سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت جملہ بازی اور بیاں بازی کر رہی ہیں آثار یہی ہیں کہ عوام کو پھر سے محض جذباتی تقریروں کے ذریعے پر انتخابات میں ٹر خا کر سیاسی جماعتیں اپنا ”من مراد“ حاصل کر کے پھر سے عوام کو ”ماموں“ بنا کر رفوچکر ہو جائیں گی۔
پختہ جمہوری معاشروں میں ایسا نہیں ہوتا کہ سیاسی جماعتیں کے عوامی اُمنگوں اور خواہشوں کے مطابق اپنا جماعتی منشور تیار کرتی ہیں پھر انتخابی مہم میں ہر سیاسی جماعت اپنا منشور عوام کے سامنے سربازار کر تی ہیں، جلسوں جلو سوں میں ہر سیاسی جماعت کا زور اپنے منشور کی مشہوری پر ہوا کرتا ہے، دلیل کے حسن سے لبریز ہر سیاسی جماعت عوام کو اپنا ہم نوا بنا نے کے لیے ہر وہ جتن کرتی ہے جس کی اجازت سیاسی اور جمہوری اقدار دیتی ہیں، ہمارے وطن عزیز کی سیاست کا لیکن باوا آدم کچھ زیادہ نرالہ ہے، ہمار ی زیادہ تر سیاسی جماعتیں پارٹی منشور کو محض وقت کا ضیاع سمجھتی ہیں، سو کو ئی بھی سیاسی جماعت عوامی امنگوں اور مسائل کا عرق ریزی سے تجزیہ کر کے پارٹی منشور بنا نے میں اپنا وقت ضائع کرنا گنا ہ بے لذت سمجھا کرتی ہے، عام طور پر انتخابی مہم میں کیا ہوتا ہے، ایک سیاسی جماعت اپنے جلسوں میں اپنے سیاسی مخالفین کو ”ابے او“ طرز کی تقاریر کر کے عوام کے دلو ں کو گرمانے کا ساماں کر تی ہے، جواب آں غزل کے طورپر حریف سیاسی جماعت اپنے جلسوں میں اپنی مخالف جماعتوں کی ”خبر گیری“ میں مزید دو ہاتھ آگے چلی جاتی ہے، یو ں سیاسی جماعتوں کی اس ”دھما چو کڑی“ میں ملک کی سیاسی فضا میں ایک عجیب سا سیاسی ہیجان برپا ہو جا تا ہے،اور اسی سیاسی طلاطم میں انتخابات کا مقررہ دن آجاتا ہے اور سیاسی ہڑ بونگ میں یو ں عوام کو الجھا کر انتخابات کا دن گزر جاتا ہے، یعنی انتخابی مہم میں جو سیاسی جماعتیں چرب زبانی میں نمبر لے جاتی ہیں وہ اقتدار میں آجاتی ہیں، اور جن کی چرب زبانی کام دکھا نے سے رہ جاتی ہیں وہ اقتدار میں آنے والے سیاسی جماعتوں کے خلاف پہلے ہی دن سے آستینیں چڑھا لیتی ہیں۔
یہ قصہ نہ تو آج کا ہے نہ گزرے چند سال کا ہے بلکہ جمہوریت کے نام پر کئی دہائیوں سے یہ سیاسی سرکس جاری ہے اور ہنوز یہ سلسلہ پوری طر ح سے اپنی جو لا نی دکھلا رہا ہے، ہو نا کیا چاہیے تھا، مہذب جمہوری معاشروں کے ذمہ دار سیاسی جماعتوں کی طر ح ہماری سیاسی جماعتوں کو عوام کے مسائل کو اپنی اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنا نا چا ہیے، ہر سیاسی جماعت قابل عمل منشور کے ساتھ عوام کے سامنے جامع اور ٹھوس انداز میں اپنا منشور رکھے اور عوام سے اپنے منشور کے بل بوتے پر ووٹ مانگیں، اگر ہماری سیاسی جماعتیں اپنی منشور کو مرکزی اہمیت دے کر انتخابات کے میدان میں اتریں اس سے ایک تو ملکی سیاست میں تیزی سے پروان چڑھتی بلکہ بڑھتی سیاسی تلخی کا خاتمہ باآسانی ممکن ہو سکے گا دوم عوام کے لیے بھی آسانی پیدا ہو جا ئے گی کہ جس جماعت کا منشور عوام کی امنگوں سے میل کھا تا ہوگا عوام اس سیاسی جماعت کے پلڑ ے میں اپنی حمایت ڈال دیں گے، لیکن مقام افسوس کہ ہماری سیاسی جماعتیں کڑے حالات سے گزر کر بھی کچھ سیکھنے اور سمجھنے کے لیے اب بھی قطعی طور پر تیار نہیں، اب بھی منشور اور دلیل سے انتخابی مہم چلا نے کے بجائے تمام سیاسی جماعتیں وہی نفرت کی شعلوں کو ہوا دے کر سیاسی میدان میں اتری ہیں، عیاں سی بات ہے کہ سیاسی ہاتھیوں میں برپا اس لڑا ئی میں پھر سے عوام کا کباڑا ہو نے جا رہا ہے،گویا جس طر ح سے گزرے تمام انتخابات میں عوام کے ارمانوں کا خوں ہوتا رہا آمدہ انتخابات میں بھی عوام کے ہاتھ کچھ خاص آنے کی امید نہیں، سوال عوام اور سیاسی جماعتوں کے نام یہ کہ آخری یہ کھیل کب تلک جاری رہے گا کب تک عوام کے ساتھ ووٹ کے نام پر عوام کے ساتھ ”ہاتھ“ ہو تا رہے گا۔