مظفرآباد اور نیلم کا علمی و ادبی منظر نامہ
خیر زمان راشد
یہ ہری پربت اور مکڑا کے سائے میں پھیلی وادیاں ہیں۔ جو نیلم جہلم اور قدیم مظفرآباد کا علاقہ ہے۔ یہاں کی شعری روایت بہت قدیم ہے۔ بہت سی نابغہ شخصیات یہاں پیدا ہوئیں اور علم ادب شعر اور تاریخ میں اپنا نام پیدا کیا۔ اسی ادبی منظر نامے کا تسلسل آج ہمیں باقاعدہ ادبی فورمز کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔
فروغ علم ادب سوسائٹی اور سخن سرائے اس تخلیقی اور علمی سفر کا سنگ میل اور تسلسل ہے۔ نیلم میں یہ صدا نوے کی دہائی میں اس وقت بلند ہوئی جب پورا نیلم انڈین فائرنگ کی زد میں تھا۔ وہاں سے اس شعور کا چراغ جلنا مقامی طور پر کچھ مزاحمت اور کچھ اپنے حالات کا اظہار تھا۔ اس حوالے سے بہت سے لوگ سرگرم رہے۔ عزیز اللہ عزیز منہاس صدائے نیلم اور اس کی ٹیم نے یہاں کے مقامی ایشو کے ساتھ لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی۔
حاجی عزیز اللہ منہاس کا صدائے نیلم ایک مجلہ اور ایک تحریک تھی۔ عزیز اللہ منہاس مرحوم وہ نیشنل بنک میں مینیجر تھے اور جاب کے ساتھ فلاحی کاموں کابھی ذوق رکھتے تھے۔انھوں نے پہلی تنظیم اپنے گاؤں دواریاں کے لیے قائم کی۔ صدائے نیلم اسی تنظیم کا پہلا ترجمان مجلہ تھا جس کی بعد میں کراچی سے اشاعت شروع ہوئی۔ کراچی سے اشاعت کے باجود اس کی تقسیم آزاد کشمیر میں ہوتی تھی کیونکہ مجلہ کے مدیر، مالک، لکھاری سب احباب نیلم اور مظفرآباد سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ مجلہ ادبی تحریروں اور شاعری کے لیے ایک گوشہ یا صفحات مختص رکھتا۔ لیکن اصل مقصد نیلم اور مضافات کے لوگوں کے مسائل اور تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے ان کا شعور بیدار کرنا تھا۔
اس حوالے سے معروف آرکٹیکٹ اور نیلم پر دو تاریخی کتابوں کے مصنف سمیع اللہ عزیز منہاس نے میرے سوال کے جواب میں بتایا کہ صدائے نیلم کا پہلا ایڈیشن1979میں کراچی سے شائع ہوا۔ اس کے بانی میرے والد صاحب حاجی عزیز اللہ منہاس تھے۔ اسی نام سے بعد میں ایک فلاحی تنظیم تحریک صدائے نیلم کے نام سے 1982میں رجسٹرڈ ہوئی۔ کشمیر میں اس تحریک کی شاخیں قائم ہوئیں۔ لیکن بعد میں کام صرف کراچی میں ہوتا رہا۔ سمیع اللہ عزیز منہاس کا کہنا تھا کہ خطے میں ترقیاتی کاموں اور لوگوں کی فلاح کے لیے صدائے نیلم کا بنیادی کردار رہا ہے۔ فائرنگ کے دوران بھی لوگوں کے مسائل اور مشکلات کے حوالے سے صدائے نیلم مجلہ اور صدائے نیلم تحریک اپنا کرادر ادا کرتی رہی ہے۔ اس کا طریقہ کار یہ ہوتا تھا کہ آزاد کشمیر کی انتظامیہ اور ممبران اسمبلی کو اس کی کاپی بھیجی جاتی تھی۔ اور پھر مسائل کے حل کے لیے صدائے نیلم تحریک کے لوگ رابطہ رکھتے۔ یہ مجلہ چونکہ باہمی تعاون سے شائع ہو رہا تھا سوشل میڈیا اور مالی مسائل کے ساتھ دلچسپی رکھنے والے احباب کی عدم توجہی کے باعث اب دو سال سے اس کی اشاعت ممکن نہیں ہوسکی۔
نیلم میں باقاعدہ ادبی کام کا آغاز ادبی مجلہ نیلم اور فروغ علم ادب سو سائٹی کا قیام ہے۔اس حوالے سے محترم اقبال اختر نعیمی صاحب جو فروغ علم ادب سوسائٹی کے بانی صدر اور آج سوسائٹی کے سرپرست ہیں، سے میں نے نیلم کے ادبی منظر نامہ پر کچھ معروضات کی گزارش کی۔ نعیمی صاحب کی مختصر تحریر گواہی بھی ہے شکرانہ بھی ہے اور کچھ کچھ شکایت بھی ہے۔ نعیمی صاحب لکھتے ہیں۔
مجھے درست تاریخ یاد نہیں یہ غالباً 2006 کی گرمیوں کا کوئی دن تھا، جب میرے پاس لطیف الرّحمان آفاقی صاحب تشریف لائے اور کہا کہ ایک ادبی پلیٹ فارم ہونا چاہیے جس کے ذریعے نوجوانوں میں علمی ادبی اور تحقیقی جذبہ پروان چڑھے، میں اپنے آپ کو اس اہل نہ پاتا تھا انکار کر دیا مگر وہ جماعت اسلامی کے تربیت یافتہ تھے بس چمٹ ہی گئے اور اقرار لے کر ہی چھوڑا،اس کے قریباً ایک ہفتے بعد کچھ احباب جمع ہوئے اور بھر پور نشست ہوئی ازاں بعد تنظیم سازی ہوئی اور ”فروغِ علم و ادب سوسائٹی نیلم“ نام تجویز ہوا۔ اس فقیر کو صدر چنا گیا، اور جناب خلیل الرحمان انجم صاحب جنرل سیکرٹری منتخب ہوے، محترم پیر زادہ ضیاء الرحمان ضیا صاحب ڈپٹی سیکرٹری چنے گئے۔
اس نشست میں کچھ اور احباب بھی تھے جن کے ذمے مختلف تنظیمی ذمہ داریاں لگائی گئیں جن میں اسلم سحر پیر زادہ، چودھری سعادت حسین وغیرہ شامل تھے۔ طے یہ پایا کہ ہر ماہ ایک ادبی نشست کا اہتمام لازمی ہو گا۔جس میں شعرا، نثر نگار، افسانہ نویس، کہانی کار اپنا اپنا کلام اور تحریر سنائیں گے جس کا ہلکا پھلکا تنقیدی جائزہ بھی لیا جاتا رہے گا۔
سو اسی تجویز پر عمل درآمد شروع ہو گیا ساتھی آتے اپنا کلام سناتے بعض ساتھی کسی دوسرے ادیب کا کوئی ادب پارہ سناتے۔ جس کی روداد محترم خلیل انجم بڑی مستقل مزاجی سے تحریر کرتے رہے سوسائٹی کا کچھ کچھ چرچا علمی حلقوں میں بھی ہونے لگا اور دلچسپی رکھنے والے دوست ملتے رہے کبھی کوئی طرحی مصرع دے دیتے تو شعرا اس پر اپنی غزلیں اور نظمیں لکھ لاتے کبھی طلبہ کے مابین مضمون نویسی کا مقابلہ منعقد کرواتے ایک بار تو ایک رسالہ نکالنے کی تجویز دی گئی جس پر عمل ہوا اور ”نیلم“ کے نام سے ایک رسالہ بھی شائع کر دیا گیا۔ جس میں سوسائٹی ممبران کا کلام اور طلبہ و اساتذہ کی تحریریں شامل تھیں۔ ابھی سوسائٹی کی عمر دوسال نہیں ہوئی تھی کہ جناب خلیل انجم صاحب نے سیکرٹری شپ سے معذرت کر لی تو جناب ضیاالرحمان ضیا صاحب نے یہ منصب سنبھالا۔
سوسائٹی کی نشستیں ہوتی رہیں اسی دوران سوسائٹی کے بھاگ جاگے کہ دو عظیم نفوس سوسائٹی میں شامل ہوگے جو فی نفسہ ادیب بھی تھے اور ادب کی ترویج کا جذبہ بھی رکھتے تھے میری مراد ہیں جناب عبدالبصیر تاجور صاحب اور پروفیسر احمد وقار میر صاحب۔ بصیر صاحب کی شمولیت سے سوسائٹی کے چرچے نیلم سے نکل کر شہروں تک پہنچے۔ اب سوسائٹی میں نوآموز حضرات کے ساتھ ساتھ کہنہ مشق لوگ بھی شمولیت پر فخر محسوس کرنے لگے نشستیں باقاعدہ ہوتی رہیں لیکن افسوس انجم صاحب کے طرز پر روداد لکھنے کا تسلسل نہ رہا تاہم اس سوسائٹی نے نیلم میں شعراء کے لیے ایک فورم اور پلیٹ فارم ممکن بنایا۔ جہاں سے گزر کر بہت سے شعراء اب آزاد کشمیر اور پاکستان کے شعری حلقوں میں اپنا نام بنانے میں کامیاب ہوئے۔ ممکن ہے بہت سے لوگوں کو اپنا یہ مضافاتی گھر یاد نہ ہو یا وہ اب اس تعلق کو اپنے لیے اہم نہ سمجھتے ہوں۔ لیکن ادبی تذکرہ میں یہ سنگ میل رہے گا اور لمحہ موجود تک اس کا کردار ہے۔
(جاری ہے)