ضرب ِ مومن

سید جواد علی زیدی
ساؤتھ ایشیا کا خطہ اپنی مہمان نوازی کے لیے بہت مشہور ہے، اور کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی اس جگہ میں سیر وتفریح کے لیے نکلے تویہاں کا دلدادہ ہو جاتا ہے۔ مگرلگتا ہے کہ سموگ کی بھی یہی کہانی ہے، اس نے ایک دفعہ جو اس علاقے کا رخ کیا، یہیں پر ڈھیرے ڈال لیے۔ یہاں تک نہیں بلکہ ہر سال ہماری مہمان نوازی سے لطف اٹھانے کے لیے سردیوں کے شروع میں یہ سموگ یہاں کا رخ کرتی ہے اورساتھ ہی ہمیں تحائف سے بھی نوازتی ہے جس میں گلے کے سُروں کو کچھ ایسا چھیڑتی ہے کہ سننے والا اپنے ہی فن موسیقی کو پہچان نہیں پاتا۔ پھر یہ زہریلی گیس اس قدر سلیقہ اور محبت دکھاتی ہے کہ آنکھیں نم ہو کر سرخی سے بھر جاتی ہیں۔ عوام تو ایک طرف، ہمارے ماحولیاتی ادارے اس کے استقبال کے لیے پرجوش ہوتے ہیں اور سازگار ماحول بناتے ہیں کہ سموگ کو آنے میں بالکل کوئی تکلیف نہ ہو۔ سارے تعمیراتی منصوبے بھی سموگ کی آمد پر شروع کئے جاتے ہیں تاکہ غلطی سے بھی یہ شک وشبہ نہ ہو کہ ہم سموگ کے بہتر طریقے سے پھلنے پھولنے میں رکاوٹ لا رہے ہیں۔
جو ممالک اس کی مہمان نوازی میں پیش پیش ہیں، ان میں پاکستان اور بھارت سر فہرست ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہمارا پڑوسی ملک بھارت جو آئی پی ایل میں بارش سے متاثرہ گراؤنڈ کے بالوں کو ہئیر ڈرائیر سے خشک کرتا رہا، اب نئی دہلی کی انتظامیہ نے شہر کی آب و ہوا کو بہتر بنانے اور زہریلی دھند سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے بادلوں سے شرارت کر کے اسے رُولانے کا فیصلہ کیا ہے۔ مگر پاکستان جو پی ایس ایل میں بارش سے متاثرہ گراؤنڈ کو ہیلی کاپٹر سے خشک کرتا ہے اور سرخیوں میں گرجتے ہوئے بادلوں کی طرح چھایا اب اس مہاورے کے مترادف ثابت ہوا کہ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں۔ دونوں ملکوں کی ترجیحات اور تاریخی واقعات دیکھ کر ذہن میں آتا ہے کہ یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ اس کو اگر لاہور کے تناظر میں دیکھا جائے تو الٹا راوی بہہ رہا ہے،بنے گا، شاید وہ بھی صورتحال کو مزید بگڑتا دیکھ کر ایسی کنارہ کشی اختیار کرے کہ ہم صرف راوی کا نام جپتے رہ جائیں اور پانی روپوش ہو جائے۔
شہر لاہور دنیا میں سموگ سے متاثر شدہ شہروں میں مسلسل پہلی پوزیشن پر ایک بہترین طلب علم کی طرح قابض ہے، لیکن اب لاہور کی پوزیشن اسی طرح خطرہ میں ہے جس طرح ولڈکپ میں پاکستان کے چھکے چھوٹے ہیں۔ زندہ دل والوں کے شہر میں اب بارش تو ہوچلی ہے اور ہر شہری خوش ہے۔ مگر ابھی تک یہ کوئی بھی وثوق کے ساتھ نہیں کہہ پایا کہ یہ سچ میں خوشی کے آنسو تھے،سموگ سے بچھڑنے کا غم یا پھرسموگ کا الوداعی تحفہ۔ یہ آنسوؤں کا کیا ماجرہ ہے،اس کا فیصلہ تو مکمل ثبوت اور گواہان کے بغیر ممکن نہیں لیکن بارش کی خبر رحمت کے فرشتے کی طرح نازل ہو گی اس پر سب متفق ہیں جس سے شہر کے چہرے سے سموگ اس طرح دھل جائے گی جیسے نئی نویلی دلہن کے چہرے سے سسرال میں اگلے دن میک اپ دھل جاتا ہے۔ جب اس کے بعد قدرتی حسن سامنے آتا ہے تو اس کا شوہر اسے اگلے دن پہچاننے سے انکار کر دیتا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ زندہ دلان لاہور سموگ کے عادی ہونے کے بعد لاہور کے اصل چہرے کو پہچان پاتے ہیں یا نہیں۔
جب پچھلی دہائی میں سموگ کی مصیبت کے ایسے بادل چھائے جیسے شیطان بذات خود حاضری دینے آرہا اور موت کا فرشتہ دنیا کو مٹانے کے لیے کچھ سامان کر رہا ہو تو وہی پوری دنیا نے سموگ کے خلاف موسیٰ کلیم اللہ کا اپنی قوم کو بچانے کے لیے نیل کا دریا پار کرنے جیسے دلیرانہ فیصلے لیے اور ایک باشعور قوم ہونے کا ثبوت دیا۔ اس کی بہترین مثال ہمارے پڑوسی ملک چائنہ ہے جس نے سموگ کے خلاف اعلان جنگ کیا۔ چائنہ نے جب بغاوت کا پرچم لہرایا تو اپنے دشمن کو شکست دینے کے لیے اقدامات بھی کئے۔ مزید برآں، صنعتی مقامات کو بند کر کے اور حرارتی نظام کو بہتر بنا کر کوئلے کی کھپت کو کم کرنے پر توجہ دی۔ سموگ جو پہلے مہمان نوازی کی عادی نے ایسا جارحانہ انداز دیکھا تو اپنا سامان باندھ کر بھاگنا مناسب سمجھا۔
جہاں چائنہ نے چالاکو ماسی سموگ سے اپنے شہریوں کو چھٹکارا دلایا وہیں مملکت خدادادپاکستان کی سرکار نے ایک امیر زادی ماں کی طرح برتاؤ کیا کہ جب بچہ روئے تو اسے گھر کے باقی فرد کے حوالے کر دو اور آرام کو ترجیح دو۔ جب سرکار کی ادائیں دیکھیں تو اسی طرح ہمارے اداروں نے صرف یہ حل نکالا کے سموگ سے بچنے کے لیے بازاروں اور تعلیمی مراکز کو بند کردیا جائے۔ اس سب میں حقائق سے ایسے نظر یں چرائیں جیسے کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں موند لیتا ہے۔ مگر بلی بھی میاؤں کہتے کہتے کبوتر کو جام شہادت نوش کرا دیتی ہے اور وہ کبھی اپنی نادانی پر بھی ماتم نہیں کر سکتا۔البتہ لاہور کی تتلیوں کی خوبصورتی جو سموگ کے باعث مدہم پڑ گئی تھی اور خواتین کو مختلف قسم کی سکن کی بیماریوں میں مبتلاء کر رہی ہے، اب شاید وہ حسن بحال ہوجائے۔ سرد راتوں میں لاہور کا نہ صرف قدرتی حسن و جمال دیکھنے کو ملے بلکہ زندہ دلانے لاہوریوں کی بھی خوبصورتی جگمگااٹھے گی اور چہرے لشکارے مارنے لگیں گے۔