بزم اردو کا گوشہ کتب

ایم یوسف بھٹی
انٹرنیشنل شارجہ بک فیئر، جانے کے لیے ہم بعد از دوپہر 2بجے روانہ ہوئے۔ کتابوں کے تھیلے اُٹھا کر گاڑی میں رکھنے کا جو تھیلا میرے حصے میں آیا اس میں رکھی سب سے اوپر والی کتاب کا عنوان ”ابلیس“ لکھا تھا۔ یہ کتاب اپنے عجیب و غریب عنوان کی وجہ سے مجھے کافی دلچسپ محسوس ہوئی۔میں نے یہ کتاب الگ کی اور اپنے بائیں ہاتھ میں پکڑ لی۔ گوگل نے شارجہ ایکسپو سنٹر کا فاصلہ 20منٹ ظاہر کیا مگر ٹریفک کے رش کی وجہ سے گاڑی ایک جگہ رکی تو سرمد خان صاحب نے مجھے خاموش دیکھ کر پوچھا،”بھٹی صاحب کیا چل رہا ہے“؟ الہامی کتب کے مطابق ابلیس اللہ تعالیٰ کا مقرب ترین فرشتہ تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اتنا عبادت گزار تھا کہ اس نے زمین کے چپے چپے پر سجدہ کیا تھا۔ وہ اپنے علم میں بھی تاک تھا اور اس نے بتا دیا تھا کہ انسان زمین پر ناحق قتل و غارت اور خون ریزی کرے گا۔ اسی لیے جب فرشتوں کے انسان کو سجدہ کرنے کی باری آئی تو ابلیس نے غرور کیا اور اپنی عبادت اور علم کے زعم میں آ کر انسان کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت تک رائندہ درگاہ کر دیا تھا۔ ابلیس کو اس نافرمانی کی وجہ سے”شیطان“ بھی کہا جاتا ہے۔ ابلیس کے عنوان والی اس کتاب کی مصنفہ نمرہ احمد ہیں۔ میرے بائیں طرف پچھلی سیٹ پر پاکستان سے آئے ہوئے مہمان فرقان صاحب بیٹھے تھے شاید انہوں نے بھی میری”باڈی لینگویج“ کو دیکھ لیا تھا۔ میں نے اس کتاب کی ورق گردانی کی”ایکٹنگ“ کرنے کی کوشش کی اور اسرائیل فلسطین جنگ کا موضوع چھیڑ دیا۔ میں نے جواباً کہا:سر، غزہ کی پٹی میں درجنوں سینکڑوں بے گناہ بچے، عورتیں، بوڑھے اور نوجوان روزانہ کی بنیاد پر قتل ہو رہے ہیں۔ انسانی نسل کشی کا غم کچھ درد دل رکھنے والوں کے لیے انسانیت کا اجتماعی دکھ ہے، جو ایک ہی انسان میں جمع ہو جائے تو اس کا کتھارسس کرنا آسان نہیں ہے۔ ایسی کیفیت میں خاموشی اور پریشانی ایک فطری عمل ہے۔ شارجہ ایکسپو سینٹر تک پہنچنے میں ہمیں 40منٹ لگ گئے اور اس دوران سارا وقت یہی موضوع چلتا رہا۔
شارجہ ایکسپو سینٹر جونہی نظر آیا جلی حروف میں ہر اینٹری گیٹ پر لکھا تھا، ”We Speak Books” جس کا مفہوم میرے حساب سے یہ بنتا ہے کہ ہم وہی کچھ بولتے ہیں جو ہم کتابیں پڑھ کر اپنے اندر محفوظ کرتے ہیں۔ تین روز قبل شارجہ”وزڈم ہاؤس“ سے سرمد خان کے بک سٹال ”اردو بکس ورلڈ“ (حال نمبر 7، سٹینڈ نمبر زیڈ بی8) کو کچھ آرڈر ملا تھا جس کو پورا کرنے کے لیے وہ ایک روز کے لیے کراچی چلے گئے تھے اور اگلے ہی روز وہ پندرہ پندرہ کلوگرام کے کتابوں کے دو تھیلے لے کر واپس آ گئے۔ ہمارے پاس پلاسٹک کے 3بیگوں میں بھی کتابیں تھیں۔ ان کتابوں کی بنیادی جانچ پڑتال کے لیے ہمیں گیٹ نمبر2 پر بھیج دیا گیا، دس پندرہ منٹ بعد ہمارے اینٹری پاس بنے، ہم میں سے ایک نے اینٹری بک میں دستخط کئے اور ہم یہ ساری کتابیں ٹرالی میں رکھ کر کتاب میلہ کے اندر لے گئے۔ میں نے وقفے وقفے سے دیکھا کہ ہر جگہ قد آدم کی اونچائی پر یہی حروف لکھے تھے کہ، ”ہم کتابیں بولتے ہیں“۔ یہ بات قدرے ٹھیک بھی ہے کہ ہمارے دماغ کی ساخت ایسی ہے کہ ہم مطالعہ، واقعات اور تجربات وغیرہ کی صورت میں اپنے لاشعور کو جو فیڈ کرتے ہیں آئندہ زندگی میں شعوری طور پر ہم وہی کچھ بولتے ہیں اور پھر اسی پر عمل کرتے ہیں۔ سٹال پر ہمارا استقبال نوعمر عظیم انصاری (وہ ویب ڈویلپر بھی ہیں) نے کیا۔ کچھ دیر کے بعد میں نے سرمد خان سے اُردو کے دیگر سٹالز کے بارے پوچھا تو انہوں نے بزم اردو کے”گوشہ ادب“ (حال نمبر6 سٹینڈ نمبر018)کے بارے میں بتایا۔ اس سٹال کا اہتمام محترمہ فرزانہ منصور نے کیا ہے۔ لیکن جب ہم وہاں پہنچے تو ان کی جگہ، ہماری ملاقات زبیدہ خانم سے ہوئی۔ وہیں ہم انڈین خاتون محترمہ کہکشاں سے بھی ملے جنہیں ہم بعد میں اپنے بک سٹال پر لائے تو انہوں نے اپنے سکول کی لائبریرین محترمہ لتا کو فون کر کے بلا لیا جنہوں نے اپنے سکول کے لیے کم و بیش 10اردو کی کتابیں خریدیں اور کچھ مزید ٹائٹلز کے آرڈر بھی دیئے۔
اس کتاب میلے میں انڈیا کے 100پبلشرز کی شرکت کا سنا تھا۔ ان میں سے کچھ بک سٹالز کا وزٹ بھی کیا۔ لیکن تشنگی تھی کہ پہلے پاکستانی اردو کتب کے سٹالز کی سیر کی جائے۔ لیکن پتہ چلا کہ انڈیا کے ان کثیر بک سٹالز کے مقابلے میں پاکستانی کتابوں کا”قدرت اللہ قرآن بکس“ کا صرف ایک اور سٹال ہے۔ یوں اس کتاب میلے میں انڈیا کے 100بک سٹالز تھے اور پاکستان کے محض 3سٹالز تھے۔ اردو بکس ورلڈ پر ہماری مدبھیڑ ایک بڑی سیاسی جماعت کے صدر یاسر ملک سے بھی ہوئی اور انہوں نے بھی یہی شکایت کی۔ انہوں نے پروفیسر رفیق اختر کی ایک کتاب دیکھی تو فورا ًاٹھا لی اور کہا،”یہ میرے استاد ہیں“۔ انہوں نے کتاب کی قیمت دیکھے بغیر 50درہم سیلز مین کو پکڑا دیئے اور بقایا نہیں لیا۔ اسی جگہ ہماری ملاقات کراچی کے نوجوان شاعر قیصر منور سے ہوئی۔ ہم واپس نکلنے کی جلدی میں تھے۔ جب میں نے ان سے ان کی کسی کتاب کا پوچھا تو انہوں نے اپنا فون نمبر دے دیا اور کہا میری کوئی کتاب دیکھنے کے لیے گوگل کر لینا۔ معین صمدانی صاحب نے قرۃالعین حیدر کا بھی ذکر کیا کہ وہ کل ”رائٹرز فورم“ میں آ رہی ہیں شاید وہ ہمارے سٹال پر بھی تشریف لائیں۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ اپنی بنگلہ زبان”سونار بنگال“ کے لیے اتنی قربانیاں دینے والے بنگلہ دیشی بھائیوں کا وہاں کوئی بک سٹال موجود نہیں تھی۔ میری خواہش تھی کہ کتاب میلے کے عرب ممالک کے سٹالز پر بھی جایا جائے۔ سرمد خان صاحب نے یہ کام سنیئر صحافی اور مشہور ٹی وی پروڈیوسر معین صمدانی صاحب کے ذمہ لگایا مگر پہلے وہ مجھے اور فرقان صاحب کو ”رائٹرز فورم“ پر لے گئے۔ یہاں لکھاریوں کا جمگٹھا تھا۔ سیشن ابھی شروع ہونا باقی تھا کہ ہمیں عربی نسل کی پیسٹریوں، کیک سویٹس اور چائے قہوہ وغیرہ سے سروو کیا گیا۔ واپسی پر اتفاقاً میری نظر لبنان کے ایک بک سٹال پر پڑ گئی جسے دیکھ کر میں دوبارہ غمزدہ ہو گیا۔
نمرہ احمد کی یہ کتاب رمزیہ کہانیوں کی کتاب ہے اور اس کی پہلی کہانی کا نام ”ابلیس“ ہے جس کے آخر میں وہ لکھتی ہیں کہ،”میں نے سونے کے بچھڑے کو توڑ کر جلا کر نیل کے پانیوں میں بہا دیا ہے اور اب میں آپ سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا آپ کا بھی کوئی ایسا جھوٹا خدا ہے جس نے آپ کو باندھ رکھا ہے اور آپ کو اللہ سے دور کر دیا ہے؟ اگر ہے تو اسے ابھی توڑ ڈالیں۔ نصیحت پھر بعد میں آپ کے پاس نہیں آئے گی۔ بعد میں صرف عذاب آتا ہے“۔
شاید انسان کے اندر کانفس بھی ابلیس ہے جس کے بارے میں ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ روئے زمین پر شرک کے بعد سب سے بڑا کفر اپنے نفس کی پوجا کرنا ہے،جو اپنے جیسے انسانوں کا خون بھی عبادت سمجھ کر بہاتا ہے اور اسی کا مظاہرہ آج اسرائیل، فلسطینی بچوں کا قتل کر کے کر رہا ہے۔ کتابوں اور استادوں کے دماغوں میں موجود ایک علم ہی وہ ذریعہ ہے جس سے انسان کے ابلیسی نفس میں موجود اس جہالت کو ختم کیا جا سکتا ہے۔