آج کے کالمملیحہ سید

خواتین کے خلاف جرائم کی صورتحال، آئین اور قوانین

ملیحہ سید

(گذشتہ سے پیوستہ)
لیکن سال کے پہلے چار مہینوں کا کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں تھا۔پاکستانی سماج میں چونکہ مذہب سے زیادہ سماجی اقدار خاص طور پر ایسی اقدار جن کی مذہب نے مذمت کی ہے، کو زیادہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان میں جائیداد کا حق سرفہرست ہے۔ خواتین کو اکثر جائیداد سے بے دخل کردیا جاتا ہے اور ان کو ان کا شرعی اور قانونی حق نہیں دیا جاتا، لیکن پاکستان کا آئین اس بارے میں بالکل واضح طور پر عورتوں کو ان کا جائیداد میں حق دیتا ہے۔پچھلے سال فروری میں پاکستان کی قومی اسمبلی اور ایوان بالا یعنی سینیٹ نے بھی جائیداد میں خواتین کے حق کے تحفظ کا بل منظور کر لیا تھا، جسے”انفورسمنٹ آف ویمن پراپرٹی رائٹس ایکٹ 2020“ کہا جاتا ہے۔بل میں واضح طور پر کہا گیا کہ خواتین کو غیر قانونی اور جعل سازی کے ذریعے جائیداد کی ملکیت سے محروم کیا جاتا ہے۔ لہٰذا لازم ہے کہ خواتین کے جائیداد کی ملکیت کے حق کو تحفظ دیا جائے۔ تعزیرات پاکستان دفعہ 376 اور 375 کے مطابق ایسے شخص کو ریپ کا مرتکب کہا جائے گا اگر وہ کسی خاتون (یا بچی) سے اس کی مرضی کے بغیر زبردستی، قتل یا ضرر کا خوف دلا کر زنا بالجبر کرے۔ایسے میں عورت قانونی طور پر یہ حق رکھتی ہے وہ اس مرد کے خلاف قانونی چارہ جوئی اختیار کرے۔ جس کے نتیجے میں مرد کوپاکستان کے قانون کے تحت سزا دی جائے گی۔اس جرم کے مرتکب شخص کو سزائے موت یا کم سے کم 10 سال اور 25 سال قید کی سزا سنائی جائے گی جس کے ساتھ وہ جرمانے کا بھی مستوجب ہوگا۔
ہراسانی کے معنی پینل کوڈ کہ مطابق یہ ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی خاتون کی عزت مجروح کرنے کی کوشش کرے، جس میں جملے کسنا، ایسی آواز منہ سے نکالنا جو خاتون کو تکلیف پہنچائے یا اس کو ہراساں کرے، یا جنسی تعلقات میں الفاظ سے زبردستی کرے خواہ یہ گھر میں ہوں یا دفاتر میں، ایسا شخص سزا کا مرتکب ہوگا۔
پاکستان کے آئین کے مطابق ہراسانی کی سزا 3 سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانہ ہے۔ وہ تمام خواتین جو ان حالات سے گزرتی ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ اپنے حقوق کا استعمال کرتے ہوئے قانونی ذرائع سے انصاف طلب کریں۔واضح رہے کہ ورلڈ اکنامک فورم کے 2021 کے جنسی تفریق یا تفاوت کے اعشاریوں میں دنیا کے 156 ملکوں میں پاکستان کا نمبر 153 ہے۔ جنوبی ایشیا کی بات کی جائے تو آٹھ ملکوں میں پاکستان کا درجہ ساتواں ہے۔ صرف افغانستان ہم سے پیچھے ہے جہاں چار دہائیوں سے مسلسل جنگ اور تباہی کا راج ہے۔کچھ عرصہ قبل تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن نے دنیا میں خواتین کے لیے خطرناک ملکوں میں پاکستان کو چھٹا ملک قرار دیا تھا۔2019 میں اقوام متحدہ کے آبادی فنڈ(UNPF) نے پنجاب کے آخری شماریات اور حیثیت نسواں پر صوبائی کمیشن کے ساتھ مل کر ایک سروے کیا جس کے مطابق پنجاب کی 15 سے 64 برس عمر کی ہر تین خواتین میں سے ایک عورت تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ان سروے رپورٹس کے مطابق پاکستان کی 90 فیصد عورتیں اپنی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر گھریلو تشدد کا شکار ہوئی ہیں۔
یہ سب اعشاریے اور اعدادو شمار سرکاری دعووں کے بالکل برعکس ہیں۔پھر جبر اور سماجی دباؤ میں ناکام شادیوں میں پھنسی رہنے والی ذہنی تشدد کا شکار خواتین کے حوالے سے کوئی اعدادو شمار دستیاب نہیں ہیں۔ طلاق کے بعد سماجی رویوں کا شکار ذہنی کرب کا شکار عورتوں کے بارے میں بھی کوئی اعدادو شمار نہیں۔ پڑھائی کی اجازت نہ ملنے پر خوابوں کو قربان کرنے والی خواتین کا کوئی ڈیٹا موجود نہیں۔ملازمت کرنے کی اجازت نہ ملنے پر گھر میں مالی بدحالی کا بوجھ تشدد کی شکل میں ڈھونے والی عورتوں کی زندگی کا کوئی نقشہ اعدادو شمار کی صورت میں موجود نہیں ہے۔ ایک سروے کے مطابق اگر میڈیکل کالجز میں خواتین طلبہ کی شرح دیکھی جائے تو 80 سے 85 فیصد ہے لیکن پریکٹس کرنے والی خواتین ڈاکٹر 50 فیصد سے بھی کم ہیں کیونکہ ان کو شادی کے بعد گھر ہستی سنبھالنے کے لیے اپنے شوق اور ارداے کو خیر آباد کہنا پڑا۔ہزاروں کی تعداد میں رپورٹ ہونے والے کیسز میں ایک درجن کو بھی جنسی جرائم کی بنیاد پر سزائیں نہیں ہو پاتیں۔ جنسی جرائم کے مقدمات میں سزا کی شرح تین فیصد سے بھی کم ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست خواتین کے حوالے سے اختیار کیے گئے دہرے معیارات کی نفی کرے اور خواتین کے خلاف جرائم پر ایک بھرپور فریق کی حیثیت سے سامنے آئے کیونکہ جہاں سماجی خوف عورت کو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے سے روکتا ہے تو عدالتی کارروائی اور نظام بھی اسے جرم کے خلاف لڑنے نہیں بلکہ سہنے یا چپ رہنے پر مجبور کرتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button