عوام کی اُمیدیں

عاطف ملک
وطن عزیز اِس وقت ان گنت مسائل سے دوچار ہے، دلچسپ بات تو یہ ہے کہ جن سے عوام کی اُمیدیں وابستہ ہیں، وہی ملک و قوم کو اِن مسائل میں جکڑنے کے معاہدے کرتے ہیں پھر جب اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو اپنی بے بسی ظاہر کرکے دوبارہ ”خدمت کاموقعہ“ مانگتے ہیں اور بے چارے عوام چاروناچار پھر موقعہ دے دیتے ہیں۔ اور کریں بھی تو کیا کریں۔
بطور پاکستانی ہم نے ہر کام اللہ تعالیٰ پر چھوڑ کر رکھا ہے لیکن بھول گئے ہیں کہ ہم کچھ کریں گے تو اللہ تعالیٰ اُس میں برکت ڈالے گا ناں۔ مگر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ہم کچھ کریں ہماری تو خواہش بلکہ دعا یہی ہوتی ہے کہ صبح آنکھ کھلے تو صحن میں ڈالروں سے بھرے بیگ پڑے ہوں اور اوپر امریکہ کی ڈائریکٹ فلائٹ کا ٹکٹ اور امریکی گرین کارڈ۔ بس بھیا ہم ایسے ہی ہیں۔ اور ہمیں ایسا ہی معجزہ چاہیے۔
ہمیں مشکل سے نکالنے والے لیڈر ہمارے مسائل سے واقف ہی نہیں ہیں۔ جیسے پنجابی کی کہاوت ہے کہ ”گونگے دی رمزاں نوں گونگا جانے“ یعنی گونگے کی زبان کو گونگا ہی سمجھ سکتا ہے۔ مگر پھر ہم بھولے بادشاہ۔
بلاول بھٹو صاحب نے عمران خان کے دور حکومت میں عوام کی تکالیف بیان کرتے ہوئے ایک جذباتی تقریر میں فرمایا تھا کہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ”انڈے ایک سو اسی روپے کلو فروخت ہورہے ہیں اور ٹماٹر دو سو روپے درجن“۔ بھائی جن کو یہ نہیں پتا کہ انڈے کلو نہیں درجن اور ٹماٹر درجن نہیں کلو میں فروخت ہوتے ہیں اُن سے آپ کی امیدیں وابستہ ہیں؟ حد ہے۔ پھر ہمارا کونسا لیڈر پراڈو گاڑی والا نہیں ہے؟ پراڈو گاڑی میں سفر کرنے والا، محلات میں رہنے والا، دولت جن کے پاس بے شمار، نہ انہیں سوئی گیس کے بل کا مسئلہ، نہ بجلی کا بل گراں، نہ آٹے کی قطاریں، نہ مہنگی ادویات، پانی اور خوراک بیرون ملک کے کھاتے ہیں، بھائی انہیں نہیں پتا کہ تنخواہ کا انتظار صنم کے انتظار سے زیادہ ہوتا ہے اور جتنی خوشی تنخواہ دیکھ کر ہوتی ہے اتنی صنم کو دیکھ کر نہیں ہوتی۔
یقین جانیں ہم میں سے کتنے ہی بلکہ لاکھوں سفید پوش اِس ایک دہائی میں روزے کی حالت میں ہیں کیونکہ تین وقت کا کھانا کسی کو میسر ہی نہیں ہے، جن کو میسر ہے وہ ہم سے نہیں۔ اوراُن کے مسائل وہ ہیں ہی نہیں جو عام پاکستانی کے ہیں۔ بہرکیف مشہور مزاح نگار فاروق قیصر صاحب مرحوم کے ایک پپٹ کردار کی نظم کا شعر ملاحظہ فرمائیں:
ہمیں دیتے ہیں صبر کا پھل
اور خود کھاتے کیک ہیں
بلاشبہ فاروق قیصر صاحب نے اِس میں سیاست دانوں کا نام نہیں لیا لیکن اُن کا اشارہ سیاست دانوں کی طرف ہے، کہ عوام کو صبر کے پھل دیتے ہیں اور خود حکمران و سیاست دان کیک کھاتے ہیں۔ مہنگائی کے اس دور میں غریب انسان کے لیے دو وقت کی روٹی کھانا محال ہو گیا ہے، لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں، کیوں کہ لوگوں کی آمدن کے ذرائع کم جبکہ مسائل ہیں، ہر گھر کے سربراہ کی واحد ترجیح یہی ہے کہ موجودہ حالات میں اپنے بچوں کو تین وقت کی روٹی دے دے، تعلیم کے اخراجات اور بجلی گیس وغیرہ کے بل دے دے۔ جی ڈی اے کی مشہور رکن قومی اسمبلی سائرہ بانو نے ایک پروگرام میں بتایا کہ اُن نے بھائی نے معاشی مسائل سے تنگ آکر انہیں کہا کہ دعاکرو میں کسی حادثے کا شکارہوکر فوراً مرجاؤں کیونکہ مجھ میں خودکشی کی ہمت نہیں ہے۔ اندازہ کریں حالات کس نہج پر پہنچ گئے ہیں۔
ایک ضلع کا ایک گاؤں اپنے ایک ڈرائیور کی وجہ سے بہت مشہور تھا، بلکہ وہ ڈرائیور اپنے ضلع اور اپنے گاؤں کی پہچان بن چکا تھا کیونکہ اُس نے دوران ڈرائیونگ ایک گدھا تو بچا لیا لیکن بس میں سوار ساری سواریاں دریا میں بس سمیت پھینک کر مروادی تھیں، یعنی اُس کی ترجیح سواریاں یعنی انسان نہیں تھے لہٰذا اُس نے گدھا بچا لیا اور انسانوں کو بس سمیت دریا میں پھینک دیا۔ تو بھائی ہمارے ملک کے سیاست دان بھی اسی ڈرائیور جیسے ہیں جنہوں نے اپنی آل اور جمہوریت تو بچا لی لیکن ملک کوحقیقی معنوں میں دیوالیہ کرلیا اور عوام کو خودکشیوں پر مجبور کردیا ہے۔ایسی ہی مثال ایک سلطان نامی شخص کی ہے جو پیشے کے اعتبار سے پھل فروش ہے اور فروٹ وغیرہ بیچ کر بمشکل اپنا اور اپنے بچوں کا گزارا کرتا ہے۔گھر کا گیس کا بل ادا نہ کرنے کے باعث محکمہ سوئی گیس والے گیس کا میٹر کاٹ کر لے گئے ہیں اور اس کو تلقین کرتے ہیں کہ وہ اپنا بقیہ سارا بل جمع کروائے گا تو اس کا میٹر بحال کر دیا جائے گا۔ محمد سلطان کا کہنا ہے کہ میں نے قسطوں کی صورت میں اکتیس ہزار جمع کروادیا کیوں کہ میں پانچ چھ سو روپے بمشکل روز کماتا ہوں میرے لیے اکھٹا بل ادا کرنا بہت مشکل تھا اور نہ ہی میرا زریعہ معاش اتنا مضبوط ہے کہ میں سارا اکھٹا جمع کروا سکوں تاہم بل کی ادائیگی کے بعد محکمہ سوئی گیس نے مجھے میرا میٹر واپس نہیں کیا۔ جس پر میں نے دوبارہ میٹر کے لیے کاغذات جمع کروائے اور سارے پروسیجر سے گزرنے کے بعد محکمہ کی جانب سے مجھے نیا میٹر الاٹ کیا گیا۔جس کا پہلے مہینے ہی مجھے قریباً ایک لاکھ نوے ہزار کا بل بھیج دیا گیا۔جب میں یہ سارا معاملہ محکمہ کے پاس لے کر دوبارہ گیا تو انہوں نے کہا کہ میٹر ڈفالٹ ہے اور آپ کو یہ سارا بل ادا کرنا ہوگا۔ جس پر میں نے محکمہ کے مختلف افسران سے درخواست کی کہ جناب یہ میرا بل نہیں اور میں اتنا کیسے ادا کروں گا چنانچہ آپ کا ادارہ ہی میٹر کو ڈفالٹ کہہ کر دوبارہ کاٹ کے لے گیا ہے۔ محمد سلطان نے زورو قطار روتے ہوئے کہا کہ یہ سب محکمہ کی غفلت کا نتیجہ ہے میرے پاس اتنا سرمایہ نہیں کہ روز سلنڈر باہر سے بھرواکر لاؤں، مجھے انصاف چاہیے کیوں کہ میں غریب انسان ہوں جو بہت مشکل سے اپنا گزارا کرتا ہوں اور بل کی ادائیگی کرنے کے باوجود بھی محکمہ میرے ساتھ تعاون نہیں کر رہا۔ یہ ادارے کی غفلت ہے کہ انہوں نے ڈفالٹ میٹر لگایا اس میں میرا کیا قصور ہے؟
ہمارے ملک میں کتنے ہی ایسے”سلطان“ ہیں جو نام کے ہی”سلطان“ ہیں لیکن اُن کے نصیب بلاول، بختاور، آصفہ، مریم نواز، حسن و حسین نواز تو دور فلم سلطان کے سلمان خان جیسے نہیں ہیں، جن کے لیے ادارے اور قانون خود چل کر دہلیز تک آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پوری قوم کو اِن دو خاندان کے بچوں جیسے نصیب عطا فرمائے۔ آمین