آج کے کالممحمد عثمان کھوکھر

بول کہ لب آزاد ہیں تیرے

محمد عثمان کھوکھر

ضرورت نہیں اور یقین مانیں میں مناسب بھی نہیں سمجھتا کہ آپ کے سامنے تعمیر معاشرے کے لغوی اصطلاحی مفہومین، مغربی مفکرین اور سایہ خدائے ذوالجلال مملکت پاکستان کے اعلیٰ و ارفع دانشوروں کے نظریے بیان کروں!اور آپکے زہنوں کو مزید بحث و مباحثے کی دعوت دوں۔اس بحث و مباحثے کے فتنے نے آج ہم سے ہر شے چھین لی ہے۔پاکستان کا مطلب کیا ہے؟لا حاصل بحث جاری ہے،لبرل ازم کا نظام چاہیے یا اسلام ازم بحث چل رہی ہے،ہمیں جمہوریت راس ہے یا ڈکٹیٹر شپ بحث چل رہی ہے،بہتر نظام تعلم کونسا ہے بحث چل رہی ہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ ان ساری بحثوں میں ہمیں یہی علم نہیں کہ ہم یہ بحث کر کیوں رہے ہیں۔ خیر بات ہو رہی تھی معاشرے کی سادہ اور سمپل بات لفظ وحرف اور جملوں کے الجھاؤ کی ترکیبی بناوٹوں سے ہٹ کر بس اتنا جان لیں ہر کام و امور میں انفرادیت سے اجتماعیت کے عمل و شعور میں داخل ہونے کا نام معاشرہ ہے اور یہ سوچ و عمل بہترین معاشرے کی بنیاد ہی نہیں رکھتا بلکہ بہترین شعور و عمل اور رویوں کی معراج ہے،لیکن بدقسمتی سے بحیثیت گروہ،جماعت غرض فرد، فرد ہم مذہب، انفرادیت کے پیروکار ہیں۔اجتماعیت سے ہم اتنے ہی دور ہیں جتنے ہم اسلام سے، اورحیرت در حیرت کہ اسلام سارے کا سارا اجتماعیت کے رنگ میں رنگا ہوا ہے مگر سارے کے سارے مسلمان انفرادیت کے علمبردار ہیں۔لالچ،جھوٹ،وعدہ خلافی،حسد،ظلم اور حق تلفی وہ عمل خاص ہیں جن میں ہم سب ماہر ہیں اور مجھے اک انفرادی برتری یہ بھی ہے کہ میں تو ان میں پی ایچ ڈی ہوں،لیکن شکر ہے کہ احساس ملامت سے محروم نہیں ہوں اور میرا ضمیر مجھے اکثر ملامت کرتا ہے اورشاید یہ کمزور ایمان کی نشانی ہے، کمزور ہی سہی مگر ابھی زندہ تو ہے اور میری کوشش ہے اسے مرنے نہ دوں۔
کل دوران سفر میں لاہور جا رہا تھا اور ویگن کنڈیکٹر انفرادی لالچ میں ہر مسافر سے بیس بیس روپے اضافی وصول کر رہاتھا وہ بھی غصے اور دھمکی آمیز لہجے میں اور یہی نہیں دوران سفر خاتون مسافر کو صرف اس لیے ویگن سے اُتار دیا کہ اس بیچاری نے حیاء وشرم جیسی ایمانی صفت کو برقرار رکھنے کے لیے اتنا کہہ دیا کہ عورتوں کو مردوں کے ساتھ مت بٹھاؤ اور وہ بھی آمنے سامنے ٹانگوں میں ٹانگیں پھنسائے۔بس اتنی بات پہ کنڈیکٹرسمیت مسافر حضرات بھی تلخ اور اونچے لہجوں میں بولنے لگے اتنا پردہ اور حیاداری ہے تو اپنی سواری پر بیٹھا کرو، لیکن اکیلی عورت اپنے حق پر ڈٹی رہی اور بالآخر کنڈیکٹر نے اس عورت کو ویگن سے نیچے اتار دیا اور کوئی مزاحمت نہ ہوئی، کوئی غیرت مند باریش آدمی بھی اس زیادتی پہ غصے میں نہیں آیا۔
یہ عام واقعہ نہیں ہے، در اصل یہ معاشرے کے شعور اور ایمان کا وہ آئینہ ہے جس میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ انفرادی اور اجتماعی ہمارا شعور اور ایمان کیسا ہے؟سارے واقعہ پر کوئی بندہ نہیں بولا یہ غلط ہو رہا ہے، عورت کو زبردستی نیچے اُتارنا زیاتی و ظلم ہے۔ الٹا سب باتیں کرنے لگے وڈی پردہ دار دیکھو، کسی میں ہمت نہیں ہوئی اس زبان دراز کنڈیکٹر کا کوئی منہ بند کرے،پھر میں کمزور ایمان والا اُٹھا ویگن رکوائی،سامنے کھڑے وارڈن کو بلایا ساری بات بتائی، اوورلوڈنگ،کرایہ نامہ لسٹ آویزاں نہ کرنے پر اور مسافروں سے بدتمیزی پر اس کا چالان کروایا، کنڈیکٹر میری طرف دیکھتے ہوئے بولا بہتر تھا میں آپ کو نہ بٹھاتا۔
بولیئے آواز اُٹھائیے برائی اور زیادتی کے خلاف ایسے لوگ ہی رب العالمین کو پسند ہیں اورخیر البشر محسن انسانیت محمد رسول اللہﷺ نے تعمیر معاشرہ کے عمل کو تقویت دیتے ہوئے فرمایا کہ ”تم میں سے کوئی منکر کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ کی طاقت سے بدل دے۔ اگر کوئی یہ طاقت اپنے اندر نہ رکھتا ہو تو وہ اپنی زبان سے کام لے۔ اور اگر کوئی اس کی طاقت بھی نہ رکھتا ہو تو وہ اپنے دل میں اسے برا سمجھے۔ اور یہ ضعیف ترین ایمان ہے“ کتنا اہم اور کتنا پیارا اصول ہے، روکنے والا پہلے خود رُک جائے گا اور اس طرح اِک فردی تحریک اجتماعیت میں رنگ جائے گی۔ اور سب ایک کے لیے ہو جائیں گے اور بہت جلد وہ معاشرہ سامنے آئے گا جو بقاِئے انسانیت کے لیے لازم وملزوم ہے۔ تو خدارا انفرادی سوچ اور ذاتی مفاد کی دلدل سے نکلئے اصل میں یہی تعفن زدہ گندگی ہے جو ہم سمیت پورے معاشرے کو نگل رہی ہے۔ یاد رکھئے انفرادیت کے مفادات سے اجتماعیت کے مفادات تک کا سفر ہی اصل میں انسانیت کا سفر ہے.اس سفر کو جاری رکھئے اور اس کے ساتھ رہنما اصول پر عمل کیجئے جو خالق نے مخلوق کے لیے بنایا اور حکم فرمایا ہے کہ
(ترجمہ)اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے۔
یہی اصول تعمیر معاشرہ کے لیے ضروری ہے اپنائیے اور فلاح پائیے،یہاں پر مجھے مارٹن نملر کی وہ نظم یاد آرہی ہے، جوخاموش اور مفاد پرست معاشروں کے بند دریچے کھولتے ہو ئے چیخ رہی ہے کہ خدارا منجمد بدبودار ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح نہ ہو جاؤ بلکہ زیادتی و ظلم کے خلاف بولو تاکہ کل کوئی آپ کے لیے بول سکے۔
First they came for the Communists
And I did not speak out
Because I was not a Communist
Then they came for the Socialists
And I did not speak out
Because I was not a Socialist
Then they came for the trade unionists
And I did not speak out
Because I was not a trade unionist
Then they came for the Jews
And I did not speak out
Because I was not a Jew
Then they came for me
And there was no one left
To speak out for me

جواب دیں

Back to top button