آج کے کالمحافظ محمد قاسم مغیرہ

نوجوان تخلیق کاروں کے درمیان

حافظ محمد قاسم مغیرہ

گورنمنٹ گریجویٹ کالج فار ویمن گوجرانولہ میں مورخہ 26 اکتوبر کوScript Writingکے عنوان سے منعقدہ ایک تربیتی ورک شاپ میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوا۔ مقررہ وقت سے کچھ دیر پہلے کالج پہنچا۔ کالج کے داخلی دروازے سے لے کر آڈیٹوریم تک قرینے اور سلیقے سے سجی ہر چیز پرنسپل میڈم کوثر خالد کی انتظامی صلاحیتوں کا منہ ثبوت تھی۔ آڈیٹوریم کے باہر، ورک شاپ میں شریک ہونے والوں کو ورک شاپ میں ان کی ذمہ داری اور کردار کے حوالے سے ایک مخصوص کارڈ پہنایا گیا۔ Guests سے لے کر Guest Attendees تک، اور کالج کی طالبات سے External Students تک ہر فرد نے گلے میں مخصوص ڈیزائن والا ایک کارڈ پہن رکھا تھا۔ کارڈ پر اس کی تصویر اور متعلقہ شعبے کا نام درج تھا۔ یہ نفاست اور انتظامی امور کی باریکیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ علاوہ ازیں، اس سے ہر شخص کو انتظامیہ کی طرف سے دی جانے والی عزت و توقیر کا بہ خوبی احساس ہوتا ہے۔ ہال میں شرکاء کی نشستیں بھی اسی اعتبار سے ترتیب دی گئی تھیں۔
ورک شاپ کا آغاز تلاوت قرآن سے ہوا۔ تلاوت کے بعد نعت پڑھی گئی۔
بعد ازاں مہمان مقرر ڈاکٹر تیمور کیانی نے سکرپٹ رائٹنگ پر گفت گو شروع کی۔ ڈاکٹر صاحب ملکی اور غیر ملکی جامعات سے فارغ التحصیل ہیں۔ آج کل گفٹ یونیورسٹی گوجرانولہ میں انگریزی ادب کے استاد ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا لکھا ہوا ایک ڈرامہ No Exit دنیا بھر کے ادبی حلقوں میں پزیرائی حاصل کرچکا ہے۔ پنجابی میں یہ ڈرامہ لالی کے نام سے سٹیج پر پرفارم کیا جاچکا ہے۔ مذکورہ ڈرامہ روس کی کچھ جامعات کے نصاب میں بھی شامل ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے ڈرامہ کی تاریخ، ڈرامہ کے اجزائے ترکیبی، پلاٹ، کردار نگاری اور منظر نگاری پر سیر حاصل گفت گو کی۔ انہوں نے اپنی گفت گو میں ایک اہم نکتے کی طرف توجہ دلائی کہ ترقی یافتہ ممالک میں ادب پڑھنے والے لوگ لکھاری بن کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہیں جب کہ اس کے برعکس پاکستان میں ادب پڑھنے کا مطلب محض درس و تدریس ہے۔ اس لیے اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ ادب پڑھنے کے بعد اسے عمل کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے نئے تخلیق کار سامنے لائے جائیں، اور یہ کام تربیت کے بغیر ممکن نہیں۔ ڈاکٹر تیمور کیانی کی گفت گو نے نوجوان تخلیق کاروں کے ذہنی افق کو وسعت دی اور تخلیق کے نئے در وا کیے۔ ڈاکٹر تیمور کیانی کی شخصیت کا ایک اور قابل ذکر پہلو ان کا عجز و انکسار ہے۔ چائے کے وقفے میں ان سے کچھ گفت گو ہوئی تو علم ہوا کہ ان میں علم کے ساتھ ساتھ عاجزی بھی کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی ہے۔ بلاشبہ ایسے لوگ ہی اہل علم کہلانے کے مستحق ہیں۔ ورک شاپ کے شرکاء سے سمرسیٹ ماہم کی کہانی ” دی کائٹ” کو ڈرامے کے قالب میں ڈھالنے کی مشق بھی کرائی گئی۔ مہمان مقرر نے شرکاء کی تخلیقی صلاحیتوں کی جی بھر کے داد دی۔
اگرچہ اس ورک شاپ کا اہتمام نوجوان تخلیق کاروں کے لیے کیا گیا تھا لیکن ایک بات نے بے حد متاثر کیا کہ کالج کی اساتذہ،جن کی اکثریت ایم فل اور پی ایچ ڈی ہے، میں بھی سیکھنے کی لگن ہے۔ یہ عالمانہ رویہ ہے کہ ہمیشہ سیکھنے کی کوشش کی جائے۔ اہل علم کی شان یہی ہے کہ اپنے علم سے کبھی سیر نہیں ہوتے بل کہ بحر علم میں غواصی کرتے رہتے ہیں۔
ورک شاپ کے اختتام پر سوال و جواب کا سیشن بھی رکھا گیا۔ ڈاکٹر تیمور کیانی نے شرکاء کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کے تسلی بخش جوابات دئیے۔
ورک شاپ کے انتظامات کے سلسلے میں میڈم سعدیہ عالم، میڈم حنا رفیق, میڈم فرح نوید اور میڈم ثروت جاوید نے انتہائی متحرک کردار ادا کیا۔
اس سلسلے میں والنٹیئرز نے بھی ان تھک کوششیں کی۔ مہذب، شائستہ اور مؤدب والنٹیئرز کا رویہ ان کی اچھی تربیت کا عکاس تھا۔ اس کا سہرا بلاشبہ ان کے والدین اور اساتذہ کے سر ہے۔
صدر شعبہ انگریزی میڈم سعدیہ عالم نے ورک شاپ کے اختتام پر ڈاکٹر تیمور کیانی، پرنسپل، طالبات اور تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ورک شاپ گوجرانولہ میں ڈرامہ نگاری کے فروغ میں اہم کردار ادا کرے گی۔ ڈاکٹر سعدیہ عالم نے اس سلسلے میں اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لانے کا عزم کیا۔ میڈم حنا رفیق نے کہا کہ ورک شاپ کا انعقاد ان کے vision کی ایک کڑی ہے۔ وہ گوجرانولہ میں اس قسم کی مزید ورک شاپ کے انعقاد کا ارادہ رکھتی ہیں۔ ورک شاپ کا انعقاد نوجوان تخلیق کاروں کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے جہاں وہ نام ور لکھاریوں کے زیر سایہ تربیت پاکر اپنے فن میں پختگی لائیں۔ یہ قدم نوجوان لکھاریوں کو empower کرے گا۔
اس ورک شاپ میں شہر کے دیگر سرکاری اور نجی کالجز کی پرنسپلز کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ اس قدم سے اداروں کے مابین نئے تخلیق کاروں کی تربیت کے سلسلے میں تعاون اور ہم آہنگی کو فروغ ملے گا۔
پرنسپل میڈم کوثر خالد کے خطاب اور سرٹیفکیٹس کی تقسیم کے ساتھ تقریب کا اختتام ہوا۔
اس ورک شاپ کا انعقاد ایک مستحسن قدم ہے۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں وطن عزیز کا نظام تعلیم سوال کی زد میں ہے، نئے تخلیق کاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے اٹھایا گیا ہر قدم لائق صد تحسین ہے۔ نظام تعلیم اگر سوچنا سمجھنا اور کچھ تخلیق کرنا نہیں سکھاتا تو یہ لمحہ فکریہ ہے۔ گورنمنٹ گریجویٹ کالج فار ویمن گوجرانولہ کی اساتذہ کا کردار قابل تعریف ہے کہ انہوں نے تخلیقی سوچ کو پروان چڑھانے کے لیے ایک پختہ تخلیق کار کی خدمات حاصل کیں۔ سماج میں مثبت رویوں کے فروغ کے لیے قلم کار ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس ورک شاپ کے انعقاد سے نئے تخلیق کاروں کو اعتماد اور آزادی کی فضا میسر آئے گی اور وہ اپنے قلم کے ذریعے ادب کی نئی جہتوں کو تلاش کرنے، جدید رجحانات متعارف کرانے اور نئی راہوں کے مسافر بننے کے قابل ہو سکیں گے۔ پامال راستوں پر سفر کے بجائے نئے راستوں کی تلاش کے لیے اٹھایا گیا یہ قدم قابل تعریف ہے۔ ریلف والڈو ایمرسن کے بہ قول
Do not go where the path may lead; go instead where there is no path and leave a trail.

جواب دیں

Back to top button