آل پارٹیز ایجوکیشن کانفرنس اور کرنے کے کام
محمد نورالہدیٰ
الیکشن کی باز گشت ہے۔ شنید ہے کہ کسی رکاوٹ کے بغیر یہ مرحلہ طے ہو جائے گا۔ الیکشن کمیشن کے گرین سگنل کے بعد سیاسی جماعتوں نے الیکشن مہمات کے لیے کمر کس لی ہے اور منشور کی تیاریاں بھی اختتامی مراحل میں داخل ہیں۔ منشور سیاسی پارٹیوں کی کمٹمنٹ اور ان کی ترجیحات سے آگاہ کرتا ہے کہ وہ انتخاب جیتنے کے بعد کس شعبے پر کتنی توجہ دیں گی۔ منشور بلند و بانگ دعوے نہیں بلکہ ایک سنجیدہ عہد ہوتا ہے جو سیاسی جماعتیں اپنے ووٹروں سے کرتی ہیں۔ یہ وہ بنیادی نوعیت کی دستاویز ہے جس کی بنیاد پر جب سیاسی جماعتیں حکومت میں آتی ہیں تو ان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی اس وقت مجموعی صورتحال یہ ہے کہ دستیاب وسائل سے سر ڈھانپیں تو پاؤں ننگے ہوتے ہیں، پاؤں ڈھانپیں تو سر…… پاکستان اس وقت جہاں بیشتر مشکلات سے دوچار ہے، وہیں تعلیم کے حوالے سے بھی بے شمار کرائسز کا شکار ہے۔ ملک میں پونے تین کروڑ کے قریب بچے آؤٹ آف سکول ہیں، جن کیلئے مشترکہ ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ گو کہ اس موضوع پر بحث مباحثہ ایک عرصہ سے جاری ہے لیکن ”شنوائی“ نہ ہونے کی وجہ سے اب یہ موضوع اس قدر تھک چکا ہے کہ ہاتھ جوڑ کر سنجیدگی اور عمل کا تقاضہ کرتا ہے۔
گذشتہ دنوں مجھے ایک ایسی نشست میں شرکت کا موقع ملا جہاں تمام سیاسی جماعتیں ا س سلگتے سماجی موضوع پر اکٹھی تھیں اور اس پر اتفاق رائے بھی رکھتی تھیں۔ یہ غزالی ایجوکیشن فاؤنڈیشن اور سوسائٹی فار ایکسیس ٹو کوالٹی ایجوکیشن کے زیر اہتمام تعلیم پر ایک آل پارٹیز کانفرنس تھی، جس میں سابق وزرائے تعلیم سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندگان شریک تھے جنہوں نے اپنے اپنے منشور میں ممکنہ تعلیمی اقدامات سے آگاہ کیا اور بتایا کہ ان کی پارٹی تعلیمی ریفارمز کے حوالے سے کیا ارادہ رکھتی ہے۔ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ق)، تحریک انصاف، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، استحکام پاکستان پارٹی سمیت تمام جماعتوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پاکستان کی تعلیمی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیمی ایمرجنسی لگانا ناگزیر ہو چکا ہے۔ اس ضمن میں متفقہ طور پر ہنگامی اقدامات نہ کئے گئے تو پونے 3 ملین کے اعداد و شمار ڈبل بھی ہو سکتے ہیں۔
پیپلز پارٹی اپنے منشور برائے انتخابات 2024 ء کے مطابق مفت تعلیم اور صحت کا حق ہر فرد تک پہنچانے کے لیے پُرعزم ہے۔ پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ تعلیم کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے اس ضمن میں تعلیم بیچنے والوں کی ہر صورت حوصلہ شکنی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ نصاب میں بہتری لانا اور اس میں موجود تاریخ کو حقیقی انداز میں ڈھالنے جیسے اقدامات پیپلز پارٹی کے منشور کا حصہ ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نئی تعلیمی پالیسیاں بنا کر تجربات کی بجائے پہلے سے چلنے والی پالیسیوں کو منظم اور بہتر کرے گی اور تعلیمی ایمرجنسی نافذ کر کے نظامِ تعلیم کو آئی سی یو سے نکالا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹیکنیکل ایجوکیشن کے فروغ پر توجہ بھی (ن) لیگ کے منشور میں شامل ہوگی۔
مسلم لیگ (ق) کے پیش کردہ منشور میں ڈراپ آؤٹ ریشو کم کرنے، لڑکیوں کے لیے تعلیمی مواقع بڑھانے، سکولوں میں سہولیات کے اضافے اور گھوسٹ سکولوں کے خاتمے کے لیے اقدامات پر توجہ دی گئی ہے۔
جماعت اسلامی ملک میں غیر طبقاتی اور یکساں نظام تعلیم رائج کرنے اور قومی زبان کے تعین کے ساتھ ساتھ جی ڈی پی کا 5 فیصد تعلیم کے لیے مختص کرنے اور اس میں بتدریج اضافے کا عزم رکھتی ہے……
جمعیت علمائے اسلام کو اگر حکومت ملی تو تعلیمی مسائل کے حل کے لیے لوکل باڈیز کا قیام عمل میں لائے گی اور اختیارات اور وسائل کو نچلی سطح پر منتقل کرتے ہوئے اس قومی چیلنج سے عہدہ برآء ہو گی۔ یہی نہیں بلکہ تعلیمی بجٹ بڑھانے، مفت تعلیم اور تعلیمِ نسواں پر زور بھی جمعیت علمائے اسلام کے منشور میں شامل ہے۔
استحکامِ پاکستان پارٹی لوکل گورنمنٹ کا نظام مضبوط کرتے ہوئے یونین کونسل لیول پر ہر بچے کی خواندگی کا عزم رکھتی ہے۔ آئی پی پی کے مطابق یو سی لیول پر تعلیم کی فراہمی یقینی بنا نا اور گراؤنڈ لیول پر اس چیلنج سے نبٹنا نسبتاً آسان ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سکل ایجوکیشن کا فروغ بھی منشور کا حصہ بنایا گیا ہے……
تحریک انصاف انتخاب جیتنے کی صورت میں معیاری تعلیم کے ذریعے کوالٹی ہیومن ریسورس میں اضافے پر توجہ دے گی تاکہ یہ ہیومن ریسورس اکنامک گروتھ کا بہتر انداز میں حصہ بن سکے۔
گو کہ سیاسی پارٹیوں کے پیش کردہ مذکورہ منشور میں تعلیمی ریفارمز کے حوالے سے سنجیدگی نظر آتی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ جو وعدے الیکشن سے قبل کئے جاتے ہیں، جیتنے کے بعد ان پر عملدآمد نہیں ہو پاتا۔ اس کی وجوہات پر نظر ڈالی جائے تو بہت سے رازوں سے پردہ چاک ہو گا۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ہر آنے والی حکومت نئے سرے سے نئی پالیسی بنانے پر توجہ دیتی ہے جس سے نہ صرف وقت کا ضیاع ہوتا ہے بلکہ تجربات کرتے کرتے جمہوری وقت بھی گزر جاتا ہے اور پھر باقی کام نئی حکومت کے لیے چھوڑ دئیے جاتے ہیں۔ ہمارے سسٹم کی زوال پذیری کی ایک اہم ترین وجہ یہ بھی ہے۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں متفقہ طور پر چارٹر آف ایجوکیشن کی طرف جانا چاہیے جس پر تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق ہو، وہ مل کر ایجوکیشن ریفارمز بھی لائیں اور کچھ کڑوے سٹیپ لیں۔
تعلیم کا موضوع ایسی سنجیدگی کا متقاضی ہے کہ الیکشن ہارنے والی سیاسی جماعتیں بھی تعلیمی ایمرجنسی کے تناطر میں نہ صرف جیتنے والی پارٹی کے ہم قدم ہوں، بلکہ خود ذاتی طور پر بھی اپنی اپنی پارٹیوں کے تعلیمی منشور کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات کو یقینی بنائیں اور حکومت کا بھرپور ساتھ دیں، وگرنہ منشور اور باتیں تو سب کی ہی اچھی ہوتی ہیں۔ وعدوں کی تکمیل، عہد کا نفاذ اور وسائل کا استعمال ہی یقینی نہ بنایا گیا ہو تو ایسے منشور کا کوئی فائدہ نہیں …… غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ اور ”ساقی“ نے بروقت اور پُرمغز محفل بپا کی۔ بلاشبہ سیاست دانوں کو ایسی محفلوں میں شامل کرنا سود مند ہوتا ہے کیونکہ ماہرین تعلیم اور سیاست کاروں کے آمنے سامنے بیٹھنے سے چیلنجوں اور ضرورتوں پر براہ راست بات کرنے کے دریچے کھلتے ہیں اور ان پر عملدرآمد کی ٹھوس راہیں بھی نکلتی ہیں۔ سسٹم یونہی ترقی کرتا ہے۔ وگرنہ سیاسی حکومتوں کے خلاف بیانیہ تو ہمارا قومی کھیل ہے ہی……