26 ویں آئینی ترمیم سے مستفید اور متاثرہ اعلیٰ عدلیہ تقسیم کا شکار ہوگئی, سابق گورنر پنجاب

سابق گورنر پنجاب ملک محمد رفیق رجوانہ نے کہا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم سے مستفید اور متاثرہ اعلیٰ عدلیہ تقسیم کا شکار ہوگئی ہے۔
آئینی بینچ اور ریگولر بینچ کے اختیارات اور مقدمہ کی نوعیت اور کون سا مقدمہ کس بنچ نے سماعت کرنا ہے، ابھی تک ابہام اِس میں ابہام موجود ہے۔
ایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ کو توہین عدالت کا نوٹس جو کہ اب واپس ہوگیا ہے، اور اِس پر آئینی بینچ کے تحفظات پریشان کن ہیں۔
سابق گورنر ملک محمد رفیق رجوانہ نے مزید کہا تھا کہ اِس صورتحال پر میڈیا میں تبصرے اور بحث ، اِس کا حل سپریم کورٹ نے ہی نکالنا ہے۔
قبل ازیں بھی حساس نوعیت کے سیاسی مقدمات میں مخصوص بنچ کے روبرو سماعت اور بعد ازاں فیصلے متنازعہ صورتحال پیدا کرچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم پر مختلف آراء سامنے آئیں اور یہ بھی کہ اِس ترمیم کی وجوہات کیا تھیں جن میں قابل ذکر مختلف سیاسی نوعیت اور سیاسی جماعتوں کے مقدمات کے متنازعہ فیصلے بھی وجہ قرارد یئے جاتے ہیں۔
انہوںنے کہا کہ نظام عدل درست ہونے کی بجائے مزید گمبھیر صورتحال سے دوچار ہے۔ اعلیٰ عدلیہ آئین کی تشریح کرتے کرتے آئین میں تبدیلی یا اِس کی تشریح میں کسی آئینی ضمن کو ختم کردینا یاایک نیا مطلب یا تعریف کردینا عدلیہ کا منصب نہیں ہے۔
عوام کے مقدمات سال ہا سال سماعت نہیں ہوں گے۔ فیصلے کیلئے دو یا تین نسلیں منتظر رہتی ہیں، فوری نوعیت کے مقدمات برائے سماعت مناسب وقت میں مقرر نیں ہوتے۔
انہوں نے کہا کہ وسیع تر ملکی مفاد اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کیلئے اس صورتحال کا خاتمہ ضٗروری ہے۔