فاروق قیصر اور ”رولا“

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی نے فاروق قیصر کی نظم ”اللہ میاں“ کا موجودہ حالات کے تناظر میں تجزیاتی مطالعہ کیا ہے۔ قارئین کے لیے یہ تحریر پیش خدمت ہے۔
فاروق قیصر جو اپنے مشہور کردار انکل سرگم کے لیے جانے جاتے ہیں، نے ”اللہ میاں“ کے عنوان سے موجودہ حالات کے تناظر میں ایک دلکش اور سبق آموز نظم لکھی ہے۔ یہ شاہکار نظم فاروق قیصر کے اپنے ٹی وی پروگرام میں کردار”رولا“ کی طرف سے پیش کیا جاتا تھا جو کہ کافی مقبول پروگرام تھا، یہ نظم پاکستان کے سماجی، معاشی و سیاسی منظر نامے پر تفصیل سے روشنی ڈالتی ہے، جس میں تفاوت، قیادت، اور ابھرتے ہوئے ثقافتی اور مذہبی تانے بانے پر تبصرہ کیا گیا ہے۔
نظم ”اللہ میاں“ کا مرکزی موضوع پاکستانی معاشرے میں پائی جانے والی عدم مساوات، تضادات اور اخلاقی مخمصوں کا ایک تنقیدی جائزہ ہے۔ فاروق قیصر رولا کی آواز کے ذریعے قیادت، میڈیا میں مذہب کے کردار، طبقات کے درمیان تفاوت اور ثقافتی اقدار کے زوال کے بارے میں سوالات اٹھاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
شاعری کی ساخت اور تھیم کے لحاظ جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ یہ ایک بہترین اصلاحی انداز کی نظم ہے۔ نظم کو کئی بندوں میں ترتیب دیا گیا ہے، ہر ایک”اللہ میاں“ سے مخاطب ہے، جو شاعر کو درپیش معاشرتی چیلنجوں کے جواب کے لیے ایک التجا یا دعا کی علامت ہے۔ نظم ایک سادہ لیکن اثر انگیز ڈھانچے کی پیروی کرتی ہے، کردار رولا کے خدا سے براہ راست خطاب کو اس کی مایوسیوں، امیدوں اور خدشات کو پہنچانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ اعلیٰ فلسفیانہ خیالات پر مبنی یہ براہ راست خطاب نظم کی جذباتی شدت کو بڑھا دیتا ہے۔
فاروق قیصر اپنا پیغام موثر انداز میں قارئین تک پہنچانے کے لیے مختلف ادبی آلات استعمال کرتے ہیں۔ پوری نظم میں وہ استعارے اور تضادات کے الفاظ کو استعمال کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ مثال کے طور پر،”اس کی آنکھ میں روٹی“ کا ”اس کی آنکھ میں چاند“ سے موازنہ مراعات یافتہ اور پسماندہ طبقے کے درمیان فرق کی علامت ہے۔فلموں میں ”آزادی“ اور ٹی وی پر”اسلام“ کے درمیان فرق جدیدیت اور روایتی اقدار کے درمیان تناؤ کو ظاہر کرتا ہے۔ نظم میں ستم ظریفی بھی شامل ہے، کیونکہ یہ معاشرتی بے ہودگیوں پر مزاحیہ انداز میں تبصرہ کرتی ہے۔”سیل بند ڈبہ کھانا“ اور”کتا کھاتا ہے“ کا ملاپ عدم مساوات کی مضحکہ خیزی کو اجاگر کرتا ہے۔
نظم میں پاکستان میں معاشی اور سماجی تفاوت کو واضح طور پر دکھایا گیا ہے۔ شاعر طبقات کے درمیان تقسیم پر افسوس کا اظہار کرتا ہے، جس کی علامت”ان کی چھت پر ڈش انٹینا“ اور”میرے گھر میں پی ٹی وی“ کے متضاد طرز زندگی کی علامت ہے۔ یہ امیر اور کم خوش قسمت کے درمیان وسیع خلیج کو نمایاں کرتا ہے۔
فلموں میں آزادی اور ٹی وی پر اسلام کا ملاپ ثقافتی اور مذہبی اقدار کی تشکیل میں میڈیا کے کردار کے بارے میں پاکستان میں جاری بحث کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ جدیدیت اور روایتی عقائد کے درمیان توازن تلاش کرنے کی جدوجہد کا مشورہ دیتا ہے۔
نظم ثقافتی قدروں کے کٹاؤ کو باریک بینی سے مخاطب کرتی ہے، جس کی مثال اس لائن سے ملتی ہے،”ان کی قبریں بھی پکی ہیں، میرا گاؤں کچا ہے۔“ شاعر بدلتے ہوئے ثقافتی منظر نامے سے بات کرتا ہے، جہاں روایتی اقدار زیادہ جدید اور تجارتی نظریات کو راستہ دے رہی ہیں۔
نظم معاشرے میں عدم مساوات کی طرف توجہ مبذول کرنے کے لیے ستم ظریفی اور تضادات کا استعمال کرتی ہے۔ ”مہر بند ڈبوں میں خالص کھانا، ان کا کتا کھاتا ہے“ کی منظر کشی اس بات پر ایک طاقتور تبصرہ ہے کہ کس طرح کچھ لوگ پرتعیش کھانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں جبکہ دوسرے بھوکے رہتے ہیں۔ راقم الحروف (رحمت عزیز خان چترالی) کے چترال، مٹلتان کالام اور گلگت بلتستان کے وادی غذر میں بولی جانے والی زبان کھوار میں فاروق قیصر کے ترجمے کے تناظر میں یہ جاننا دلچسپ ہوگا کہ فاروق قیصر کی نظم کے موضوعات اور باریکیوں کو کس طرح دیگر علاقائی زبانوں میں تراجم کرکے محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ ایک مختلف لسانی اور ثقافتی تناظر میں بھی تبدیل کیا گیا ہے۔ کسی بھی زبان سے تراجم اکثر متن میں معنی کی نئی تہیں لاتے ہیں، اور کھوار ورژن کا تجزیہ نظم کے موضوعات کی آفاقیت اور مختلف شمالی پاکستان کی کمیونٹیز میں ان کی مقبولیت کے بارے میں معلومات فراہم کر سکتے ہیں۔
فاروق قیصر عرف انکل سرگم کی دل کو چھوتی ہوئی یہ مشہور نظم”اللہ میاں“ جسے ان کے ٹی وی پروگرام میں ان کا مشہور کردار”رولا“ سنایا کرتا تھا، موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ نظم فاروق قیصر نے آج ہی لکھی ہو۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے نظم اور اس کے کھوار تراجم پیش خدمت ہے۔
اللہ میاں (نظم)
میرے پیارے اللہ میاں
دل میرا حیران ہے
میرے گھر میں فاقہ ہے
اس کے گھر میں نان ہے
میں بھی پاکستان ہوں
اور وہ بھی پاکستان ہے
کھوار:اے مہ شیرین خدائے مہ ہردی حیران شیر، مہ دوری شاپک نیکی ہو دوری تھنوری شیر، اوا دی پاکستانی اسوم وا ہیس دی پاکستانی اسور۔
میرے پیارے اللہ میاں
لیڈر کتنے نیک ہیں
ہم کو دیں وہ صبر کا پھل
خود وہ کھاتے کیک ہیں
کھوار:اے مہ شیرین خدائے اسپہ لیڈیر کندوری نیک اسونی، اسپتے ہیت صبرو میوان دونیان وا تان ہیت کیک ژیبونیان۔
میرے پیارے اللہ میاں
یہ کیسا نظام ہے؟
فلموں میں آزادی ہے
ٹی وی پر اسلام ہے
کھوار:اے مہ شیرین خدائے ہیہ کیہ قسمہ نظام شیر، فیلیمین آزادی شیر وا ٹیلیویژنہ اسلام شیر۔
میرے پیارے اللہ میاں
سوچ کے دل گھبراتا ہے
بند ڈبوں میں خالص کھانا
ان کا کتا کھاتا ہے
میرا بچہ روتے روتے
بھوکا ہی سوجاتا ہے
کھوار:اے مہ شیرین خدائے
دونی ہردی پریشان بویان، ہیتان رینی بند ڈبو پیک شاپیکان ژیبویان، مہ آژیلی کیڑی کیڑی وے بؤتو اوراری بیران۔
میرے پیارے اللہ میاں
دو طبقوں میں بٹتی جائے
ایسی اپنی سیرت ہے
ان کی چھت پر ڈش انٹینا
میرے گھر میں بصیرت ہے
کھوار:اے مہ شیرین خدائے، جو طھبقا بوژین باک ہش اسپہ سیرت شیر، ہیتان استانہ ڈش انٹینا شیر وا مہ دوری بصیرت شیر۔
میرے پیارے اللہ میاں
میری آنکھ کیوں چھوٹی ہے؟
اس کی آنکھ میں کوٹھی ہے
میری آنکھ میں روٹی ہے
کھوار:اے مہ شیرین خدائے
مہ غیچھ پھوک کو؟ ہتو نظرا کوٹھی شیر مہ غیچھہ شاپک شیر۔
میرے پیارے اللہ میاں
تیرے راز بھی گہرے ہیں
ان کے روزے سحری والے
میرے آٹھ پہرے ہیں
کھوار:اے مہ شیرین خدائے تہ راز دی کوڑووم شینی، ہیتان روچی سحری (زار والا) مہ رزقو بچے اوشٹ قسمہ پہرہ دئیلک۔
میرے پیارے اللہ میاں
روزہ کھولوانے کی ان کو
دعوت ملے سرکاری ہے
میرا بچہ روزہ رکھ کر
ڈھونڈتا پھرے افطاری ہے
کھوار:اے مہ شیرین خدائے
روچی دریکوتے ہیتانتے سرکاری دعوت ملاؤ بوئے لیکن مہ آژیلی روچی گنی افطاری مشکی بیران۔
میرے پیارے اللہ میاں
یہ کیسا وٹہ سٹہ ہے؟
این ٹی ایم کا سر ہے ننگا
پی ٹی وی پہ ڈوپٹہ ہے
(این ٹی ایم پہلا پرائیویٹ
چینل تھا)
کھوار:اے مہ شیرین خدائے
ہیہ کیہ قسمہ وٹہ سٹہ شیر؟ این ٹی ایمو کپالہ پیٹیک نیکی، پی ٹی ویو کپالہ پیٹیک شیر۔
میرے پیارے اللہ میاں
بادل مینہ برسائے گا
اس کا گھر دھل جائے گا
میرا گھر بہہ جائے گا
کھوار:اے مہ شیرین خدائے
بوشیکو کی بوشئیتاؤ، ہو دور نیگین بوئے لیکن مہ دور ہونو بیر۔
میرے پیارے اللہ میاں
چاند کی ویڈیو فلمیں دیکھ کر اس کا بچہ سوتا ہے
میرا بچہ روٹی سمجھ کر
چاند کو دیکھ کے روتا ہے
کھوار:اے مہ شیرین خدائے
مسو ویڈیو فیلیمان لوڑی ہو آژیلی اورئینیان لیکن مہ آژیلی مسو شاپک جوشی کیڑینیان۔
میرے پیارے اللہ میاں
یہ کیسی ترقی ہے؟
ان کی قبریں تک ہیں پکی
میری بستی کچی ہے
کھوار:اے مہ شیرین خدائے
ہیہ کیہ قسمہ تراقی شیر؟ ہیتان قبر دی پکہ شینی لیکن مہ ہال بیکو ژاغہ کچہ شیر۔
(ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی عالمی ریکارڈ و اعزاز یافتہ ماہر لسانیات، ادیب اور شاعر ہیں، حالات حاضرہ، ادب، اقبالیات اور سیاسی و سماجی موضوعات پر لکھتے ہیں۔ ان سے ای میل rachitrali@gmail.comپر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔