اسرائیل کا غرور خاک میں مل گیا
آصف رفیق
جبر تسلط کے تحت غاصب (اسرائیل) کے ظلم وبربریت کے تمام حربے ناکام ہوگئے،حماس کے حملے نے اسرائیلی غرور خاک میں ملا کررکھ دیا ہے۔ اسرائیل کو اس قسم کی جوابی کارروائی کی نہ تو اطلاع تھی اور نہ ہی توقع۔ شاید اسی لیے کہا جاتاہے کہ ”ظلم جب بڑھتاہے تو مٹ جاتاہے“اب وقت آچکاہے اسرائیل کے ہر ظلم کاحساب لیاجائے اور اسرائیلی مظالم سے محفوظ رکھنے کے لیے مسلم امہ کو فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہوناچاہیے۔اگر اسرائیل نے جارحیت اور مظالم بند نہ کئے تو اسے اس سے بڑی مزاحمت کاسامنا کرنا پڑے گا۔حماس نے پہلی بار غزہ سے بیک وقت بری، بحری اور فضائی کارروائی کی ہے،حماس نے اسرائیلی کے جنوبی شہروں میں فوجی اڈوں اور عسکری تنصیبات کو نشانہ بنایا جس سے اسرائیلی فوجیوں سمیت سینکڑو ں یہودی وصل وجہنم ہوچکے ہیں۔ ”آپریشن الاقصیٰ طوفان“کے تحت فلسطینی مجاہدین کی بڑی تعداد غزہ کی سرحد پرباڑ ہٹاتے ہوئے زمینی راستے سے اسرائیل کے شہر اشکلون سمیت جنوبی شہروں میں داخل ہوئی جبکہ سمندری راستے اور پیراگلائیڈرز کی مددسے بھی متعدد حماس ارکان نے حملہ کیا۔ حماس نے 20منٹ میں 5ہزار راکٹ برسادیئے جس سے اسرائیل کے مختلف شہروں میں شدید خوف وہراس پھیل گیا اور غزہ کی قریبی آبادی سے اسرائیلی فوجی بھاگتے اورشہری نقل مکانی کرتے ہوئے دکھائی دیئے۔ اسرائیلی فورسز نے غزہ میں آبادی، سکولوں اورہسپتالوں پر فضائی بمباری جاری رکھی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں اب تک 10 ہزار کے لگ بھگ فلسطینی جن میں بچوں اور عورتوں کی بہت بڑی تعداد شامل ہے، شہید اور ہزاروں زخمی ہوگئے ہیں، اسرائیلی طیاروں نے ہسپتالوں اور ایمبولینسز کو بھی نشانہ بنایا جو ظلم وبربریت کی انتہا ہے، جنگوں کے دوران میں ان مقامات کو نشانہ بنانا عالمی سطح پر بہت بڑا جرم ہے۔
اسرائیلی فوج غزہ پر حملوں، مسجد اقصیٰ کی بار بار بے حرمتی اور مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آبادکاروں کی کارروائیوں اور فلسطینی خواتین، بچوں،بزرگوں اور نوجوان پر مظالم کی جو داستان رقم کرچکی ہے اس کے جواب میں حماس کی کارروائی نہ صرف جائز ہے بلکہ ان کا حق ہے۔ جومغربی ممالک آج حماس کے جوابی حملے پر سیخ پاہورہے ہیں وہ اس وقت کہاں ہوتے ہیں جب مظلوم فلسطینیوں کو اسرائیلی فوج جس بے رحمی اور جبروبربریت کے ساتھ شہید کررہی ہوتی ہے۔اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کی تڑپتی لاشیں اس عالمی میڈیا کو کبھی نظر نہ آتیں، اسرائیلی بمباری اور خطرناک کیمیکل ہتھیاروں کااستعمال انہیں کبھی نظر نہ آتے۔مسلمانوں پر ہونیوالے مظالم پر خاموش رہنے والا مغربی میڈیا اور ممالک اب چیخ رہے ہیں جو کھلا تضاد ہے۔مغربی میڈیا کو اسرائیل کے ظلم وجبر کیخلاف آواز اٹھانی چاہیے لیکن وہ اس معاملے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔
فلسطینی مجاہدین نے اسرائیل کے غرور کو خاک میں ملا دیا ہے، فلسطینی مجاہدین کے اسرائیل پر حملے صیہونی جارحیت کا ردعمل ہے، ایک طرف اچانک حماس کے میزائلوں حملوں نے اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کا تاثر زائل کر دیا ہے، تو دوسری طرف پوری مسلم امہ کو یہ پیغام واضح طور دیدیاہے کہ جذبہ ایمانی اور جذبہ جہاد ہو تو بڑی سے بڑی طاقت کو شکست دی جاسکتی ہے اور اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔کئی دہائیوں سے صیہونی فورسز کے ہاتھوں قبلہ اول مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی،مظلوم فلسطینی عوام خواتین اور بچوں پر ظلم و جبر جاری ہے جسے بھلایا نہیں جا سکتا، فلسطینیوں کو صیہونی دہشت گردی کے خلاف دفاع کامکمل حق حاصل ہے اور بیت المقدس کی آزادی امت مسلمہ کا حق ہے، اسرائیلی ظلم وجبر کے خلاف فلسطینی مسلمانوں نے جذبہ ایمانی اور جذبہ جہاد سے سرشار ہوکر اپنے سے کئی گناہ بڑی طاقت اور ہر قسم کے جدید اسلحہ وبارود رکھنے اور کفار کی طاقتوں کی حمایت کے باوجود جس جذبہ ایمانی سے مقابلہ کیاہے وہ تاریخ کا سنہری باب ہے، آج مسلم دنیا کے حکمرانوں کو جہاد کی اہمیت معلوم ہوگئی ہوگی، جہاد کے خلاف بات کرنے والوں کو فلسطینی مجاہدین سے سبق حاصل کرناچاہیے اور یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ظالم جتنا بھی طاقتور کیوں نہ ہو لیکن جب اس کے سامنے ایمان کی طاقت کے ساتھ لڑاجائے تو اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوتی ہے، اسلام کی تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے ہمیشہ اپنا دفاع کیاہے کبھی پہل نہیں کی اورفلسطین پر اسرائیل نے جنگ مسلط کی ہے۔ کیا دنیا کو یاد نہیں ہے کہ کس طرح افغان مجاہدین نے کفر کی ساری طاقتوں کو افغانستان میں شکست فاش سے دوچار کیاہے۔
دوسری جانب اسرائیل پر ہونے والے حملے نے اسرائیلی انٹیلی جنس اور اس کے طاقتور ہونے کی قلعی کھول بھی دی ہے۔ اسرائیل پرحماس حملے نے نہ صرف مغرب بلکہ پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیاہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ اسرائیل کی تاریخ کی سب سے بڑی انٹیلی جنس ناکامی ہے۔ اگرچہ اس کے نتائج خطرناک اور غیر متوقع ہو سکتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان سارے حالات کی ذمے داری اسرائیل پر عائد ہوتی ہے جس نے فلسطینیوں پر ظلم وبربریت کی ایسی تاریخ رقم کی ہے جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ حماس کے حملے کے بعدمشرق وسطیٰ کا سفارتی اور سیاسی منظر نامے تبدیل ہوتادکھائی دے رہاہے۔یوں محسوس ہورہاجیسے یہ جنگ اب جلدی ختم نہیں ہوگی، حماس نے مسئلے فلسطین کی اہمیت کو اجاگر کردیاہے، دنیا کی نظریں اب فلسطین اور اسرائیل پرمرکوز ہوچکی ہیں۔اب تک جنگ نہ روکنے سے اس جنگ کو اب مزید تقویت ملنے کے آثار نمایاں ہیں۔
عزم محکم ہو تو ہوتی ہیں بلائیں پسپا
کتنے طوفان پلٹ دیتا ہے ساحل تنہا