آج کے کالمعثمان حفیظ

سموگ ایمرجنسی اور محکمہ ماحولیات کے اقدامات

عثمان حفیظ
یکم نومبر کی صبح سہانی اور عجیب سی تھی جہاں لوگوں کی چہل پہل کے ساتھ لاہور کی فضاء صاف اور پر رونق نظر آرہی تھی۔ بچے خوشی خوشی سکول کے راستہ کی طرف گامزن تھے۔لوگوں کا ہجوم جلدی جلدی اپنے اپنے دفاتر کی طرف بھاگ رہا تھا۔ کسی کو سموگ کی آمد کا علم نہ تھا اور نہ ہی کوئی فکر تھی کیونکہ اس بے حسی کے دور میں ہر فرد اپنی معاشی اور بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے میں مگن ہے۔ آج کے دور میں سوسائٹی کے مسائل اور ترجیحات بالکل مختلف ہیں اور سب اپنی زندگی کی دوڑ میں لاحاصل کو حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔ لاہوری کلچر جس کو ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کی ضامن ہونا چاہیے تھا وہ صرف اپنے مفادات کی جنگ میں مصروف ہیں۔ خیر ہم بھی اپنے دوست وحید کے ساتھ ادارہ تحفظ ماحول میں گرم چائے پی رہے تھے کہ اسی دوران پنجاب میں سموگ ایمرجنسی نافذ ہونی کی اطلاع ملی۔وحید فوری بولا کہ سموگ آخر کس بلا کا نام ہے۔ ہم نے اس کو آسان الفاظ میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ نومبر میں ہوا کی رفتار کم ہوتی ہے تو درجہ حرارت بھی کم ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے آلودہ ذرات حرکت نہیں کرتے اور ہوا میں معلق رہتے ہیں۔ باشعور افراد جانتے ہے کہ فوگ اور سموگ دو مختلف نظریات ہیں۔ رونا تو اس بات کا ہے کہ ماحولیاتی ایمرجنسی کیوں نہیں نافذ ہوتی ہیں۔کیا ہماری سوسائٹی نے فضائی آلودگی کو ہی ماحولیاتی آلودگی تصور کر لیا ہے۔ پھر پنجاب حکومت سارا سال نومبر کا انتظار کرتی ہے اور اچانک سے ایجنڈا سیٹنگ کا فلسفہ سامنے آجاتا ہے۔ اس ایجنڈا کے تحت سموگ ہی اصل ماحولیاتی آلودگی ہے اور سموگ صرف شمالی لاہور کی فیکٹریوں میں ہی دستیاب ہوتی ہیں۔ حکومت پنجاب اس وقت جتنا سموگ کے خاتمہ پر زور دیتی نظر آرہی ہے اگر سب سے اہم عوامی مسئلہ اور ایجنڈے یعنی ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے ایمرجنسی نافذ کر دے تو سردی کے موسم میں سموگ ایمرجنسی کی ضرورت ہی باقی نہیں رہے گی۔ اس ضمن میں اعلٰیٰ عدلیہ کو سلام ہے جس کا گرین بنچ سارا سال ماحولیاتی آلودگی کے خاتمہ کے لیے ہنگامی کوششوں میں مصروف عمل رہتا ہے اور محکمہ ماحولیات سال بھر آلودگی پھیلنے والوں کے خلاف کارروائیاں کرتا ہے لیکن محکمہ کی مثبت کوششیں بھی منظرعام پر نہیں آتیں۔
راجرز اور ڈیئرنگ کے ماڈلز کی روشنی میں ظہیر عباس ملک، ڈائریکٹر جنرل محکمہ ماحولیات نے ماحول کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے تاریخی اقدامات کیے اور محکمہ کی مثبت کاوشوں کو دنیا کے سامنے رکھ دیا جس کے طفیل محکمہ کو نئی شناخت ملی۔راجرز اور ڈیئرنگ نے میڈیا ایجنڈا، عوامی ایجنڈا، اور پالیسی ایجنڈا تجویز کیا۔ان ایجنڈوں کی مدد سے جناب ظہیر عباس ملک نے محکمہ ماحولیات میں ساختی تبدیلی رونما کرنے کا کرشمہ کردیا اور دن رات ماحولیاتی آلودگی کے خاتمہ میں مصروف عمل ہوگے۔ انہوں نے متعلقہ محکموں میں بھی ماحولیاتی شعور اُجاگر کیا اور ماحولیاتی آلودگی کے ممکنہ خاتمہ کے لیے دیگر محکمہ کو ساتھ شامل کیا۔ ظاہر ہے سموگ سے جنگ سب کے سنگ ہی ممکن ہیں۔صاف ستھرے ماحول کو حاصل کرنے کے لیے سوسائٹی کے ہر فرد کو اپنی ذمہ داری نبھانا ہوگی۔ محکمہ تحفظ ماحولیات کے لیے ہر دن ایمرجنسی سے کم نہیں ہے۔ فوری طور پر سموگ پریوینشن اینڈ کنٹرول رولز 2023، پنجاب انوائرمینٹل پروٹیکشن بنائے گئے ہیں۔ ان قوانین کو لاگو کرنے کی غرض اور ممکنہ سموگ کے پیش نظر محکمہ ماحولیات نے مئی 2023 میں پری اسموگ اینٹی اسموگ سکواڈز تشکیل دیتے ہوئے صنعتی یونٹس کو آلودگی پر قابو پانے کے لیے آلات نصب کرنے پر مجبور کیا تاکہ عوامی صحت اور صاف ستھرے ماحول کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے۔ اسی طرح محکمہ ماحولیات کچھ سالوں سے اینٹوں کے بھٹوں کو زیگ زیگ طریقہ کار پر تبدیل کرنے کے لیے کوشاں تھا مگر مکمل کامیابی نہیں مل رہی تھی۔ ظہیر عباس ملک نے پرانی ٹیکنالوجی کے اینٹوں کے بھٹوں کو زیگ زیگ طریقہ کار پر تبدیل کروانے میں کلیدی کردار ادا کیا اور آج مجموعی طور پر ستر فیصد اینٹوں کے بھٹے زگ زگ طریقہ کار پر کام کر رہے ہیں اور باقی بھی اس پر منتقل ہو رہے ہیں۔
ملکی حالات اور انڈسٹریز کی معاشی مشکلات کو پیش نظر رکھتے ہوئے محکمہ نے ماحولیاتی فنانسنگ ریسورس ایفیئنٹ اینڈ کلینر پروڈکشن (RECP) کے تحت صنعتی ادارے کو دس ملین تک سافٹ لون کی پیشکش کی۔ ان تمام اقدامات کے باوجود آلات نصب نہ کروانے والے یونٹس کو بند کر دیا گیا۔ اس مہم کی کامیابی کے بعد پنجاب کے تمام اضلاع میں انسداد سموگ کمیٹیوں کا نوٹیفکیشن جاری کیا جس کے ذریعہ تمام ڈپٹی کمشنرز نے اپنے متعلقہ اضلاع میں انسداد سموگ کمیٹیوں کو آلودگی پھیلانے والے صنعتی یونٹس کے خلاف سرگرم رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں لاہور میں ڈی سی کی زیر صدارت ہفتہ وار اجلاس منعقد ہوتا ہے۔ جس میں تمام محکموں کو ڈیوٹیاں تفویض کی جاتی ہیں۔ ان اجلاس کی روشنی میں مینجمنٹ سسٹم کی کمی شدت سے محسوس ہوئی جس پر محکمہ ماحولیات نے فائر انفارمیشن فار ریسورس مینجمنٹ سسٹم کا استعمال کرتے ہوئے ناسا کے سیٹلائٹ کے ذریعے پنجاب میں پرالی اور کھیتوں کی باقیات جلانے کی سیٹلائٹ کے ذریعے نگرانی کا قدم اُٹھایا۔لاہور سمیت پنجاب میں فضائی آلودگی کے تحفظ کے لیے محکمہ ماحولیات نے پنجاب میں کلین ایئر پالیسی 2023 نوٹیفائی کر دی ہے۔ اس کے ذریعے مرحلہ وار ایکشن پلان بھی مرتب کر دیا گیا ہے۔ اس پالیسی کا مقصد فضائی آلودگی اور جی ایچ جی ایس کے اخراج میں کمی پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ انسانی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے محکمہ نے فضائی آلودگی کے حوالے سے ہیلتھ ایڈوائزری سسٹم فار کریٹیکل ایئر پولوشن ایونٹس کو مرتب کیا۔ محکمہ ماحولیات کا ایک اور مثالی کام پہلی پنجاب اسٹیٹ آف انوائرمنٹ رپورٹ تیار کی گئی ہے اور اس میں تمام تر ماحولیاتی ڈیٹا اور معلومات شامل ہیں۔ ظہیر عباس ملک کے ماحولیاتی فلسفہ میں قابل ذکر میڈیا کے ذریعے بھرپور سموگ آگاہی مہم شروع کرنا شامل ہے۔ وقت کے ساتھ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اس مہم میں شامل کیا اور باقاعدہ آلودگی کے خلاف جنگ کا آغاز کیا۔ ان کی بہترین حکمت عملی کی بدولت آج آلودگی کا باعث بننے والی اسی فیصد فیکٹریوں میں ای سی ایس یعنی ایمشن کنٹرول سسٹم نصب ہو چکا ہے۔ یہ محکمہ کی سب سے بڑی کامیابی اور ایک تاریخی قدم ہے۔
چند ماہ قبل صرف بیس فیصد انڈسٹریز میں ای سی ایس انسٹال تھا لیکن ان کے ویژن سے ملکان سسٹم لگانا پر مجبور ہوگئے۔ ان کا فلسفہ ہے کہ سب سے پہلے انڈسٹریز میں آلودگی کنٹرول کرنے والا سسٹم موجود ہونا چاہیے پھر ممنوعہ کاربن سے روکا جائے گا۔ سموگ کے ممکنہ خطرات سے معاشرہ کو محفوظ بنانے کے لیے خصوصی ٹیموں پر مشتمل اینٹی سموگ سکواڈز جو تاحال دن رات ماحولیاتی پالیسیوں کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف موثر کاروائیوں میں مصروف عمل ہیں اور ان پر مقدمات بھی درج کروا رہے ہیں۔جدید کنٹرول روم قائم ہے جس میں چوبیس گھنٹے عملہ موجود ہوتا ہے اور عوام الناس اس سہولت سے فائدہ اُٹھتے ہوئے ماحولیاتی آلودگی سے متعلق شکایات بذریعہ فون، واٹس اپ اور ای میل درج کروا تے ہیں۔اس کنٹرول روم کے ذریعہ اے کیو آئی بھی مانیٹر کی جاتی ہیں۔ محکمہ کو ڈیجیٹلائز کیا گیا ہے،جس سے فیلڈ سٹاف کو بآسانی مانیٹر کیا جا سکتا ہے۔خاص طور پر سموگ کی کارروائیاں مانیٹر کرنے کے لیے ایکو واچ سافٹ ویئر متعارف اور اس کا استعمال لازمی قرار دیا گیا۔متعلقہ محکمہ جات، عوام الناس اور دیگر لوگوں سے رابطہ قائم اور ماحولیاتی آگاہی فراہم کرنے کے لیے ویب سائٹ اور دیگر سوشل میڈیا کا باقاعدہ استعمال لاگو کرکے محکمہ کو بین اقوامی کمیونٹی کا حصہ بنا دیا۔محکمہ کے محدود وسائل کے باوجود محکمہ ماحولیات کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کیاگیا ہے جو آلودگی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ پنجاب حکومت کو چاہیے کہ ماحولیات کے شعبہ میں سرمایہ کاری کرے تاکہ آلودگی کی روک تھام اور کنٹرول کے لیے انڈسٹریز میں نئی اور جدید ٹیکنالوجیز نصب کی جا سکے۔

جواب دیں

Back to top button